"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
جب ميں نے ايك ملك ميں روزہ ركھا اور پھر رمضان ميں ہى كسى ايسے ملك سفر كيا جو رمضان شروع ہونے ميں ايك دن ليٹ تھا، تو مہينہ كے آخر ميں جب اس ملك كے باشندے تيس روزے پورے كرينگے تو كيا ميں ان كے ساتھ ہى روزہ ركھوں گا، تو اس طرح ميرے اكتيس روزے ہو جائينگے ؟
الحمد للہ.
جب انسان اس ملك جہاں اس نے رمضان المبارك كى ابتدا كى تھى سفر كر كے دوسرے ملك چلا جائے جہاں رمضان ايك دن ليٹ شروع ہوا ہو تو وہ اس وقت تك عيد نہيں كرے گا جب تك اس ملك كے باشندے عيد نہيں كرتے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميں مشرقى ايشيا كا باشندہ ہوں، ہمارے ہاں اسلامى مہينہ سعودى عرب سے ايك دن بعد ميں شروع ہوتا ہے، اور ميں انشاء اللہ رمضان المبارك ميں اپنے ملك سفر كرونگا، جب كہ رمضان المبارك كے روزے ميں سعودى عرب ميں ہى شروع كر چكا ہونگا، اور مہينہ كے آخر ميں ميرے اكتيس روزے ہو جائيگے، تو ہمارے روزں كا حكم كيا ہے، اور ہم كتنے روزے ركھيں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب تم نے سعودى عرب يا كسى اور ملك ميں روزے شروع كيے ہوں اور ماہ رمضان المبارك كے باقى روزے اپنے ملك ميں ركھيں تو آپ ان كے ساتھ ہى عيد الفطر منائيں گے، چاہے تيس روزوں سے زيادہ ہى كيوں نہ ہو جائيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ كا فرمان ہے:
" روزہ اسى دن ہے جس دن تم روزہ ركھو، اور عيد الفطر اسى دن ہے جس دن تم عيد الفطر مناؤ "
ليكن اگر تم نے مہينہ كے انتيس يوم مكمل نہ كيے ہوں تو آپ كو يہ پورے كرنا ہونگے، كيونكہ مہينہ انتيس يوم سے كم نہيں ہوتا" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 15 / 155 ).
اور شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
ايسے شخص كا حكم كيا ہے جس نے اسلامى ملك ميں رمضان كى ابتدا كى اور پھر ايسے ملك چلا گيا جہاں كے باشندوں نے پہلے ملك سے ايك يوم بعد روزہ ركھا تھا، تو اس طرح اس پر ان كے روزں كى متابعت كرنا لازم ہوا جس كى بنا پر اس نے تيس سے زيادہ روزے ركھے، يا پھر اس كے برعكس ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى عنہ كا جواب تھا:
جب انسان ايك اسلامى ملك سے دوسرے اسلامى ملك منتقل ہو اور جس ملك گيا ہے اس كے باشندوں نے اس سے ايك روز بعد روزہ ركھا ہو تو وہ ان كے ساتھ ہى روزے ركھتا رہے گا حتى كہ وہ عيد الفطر منائيں؛ كيونكہ روزہ اسى دن ہوتا ہے جس دن لوگ روزہ ركھيں، اور عيد الفطر اسى دن ہے جس دن لوگ عيد الفطر منائيں، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن لوگ عيد الاضحى منائيں، يہى ہے چاہے اس پر ايك دن زيادہ بھى ہو جائے، يا اس سے بھى زيادہ يہ اسى طرح ہے جيسا كہ اگر وہ كسى ايسے ملك جائے جہاں سورج دير سے غروب ہوتا ہو، تو وہ سورج غروب ہونے تك روزہ كى حالت ميں رہے گا اگرچہ عام دن سے اس پر دو يا تين گھنٹہ يا اس سے زيادہ بھى ہو جائيں، اور اس ليے بھى كہ جب وہ دوسرے ملك منتقل ہوا تو اس نے اس ملك ميں چاند نہيں ديكھا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كہ ہم چاند ديكھے بغير روزہ نہ ركھيں، اور نہ چاند ديكھے بغير عيد الفطر منائيں:
فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ "
اور رہا مسئلہ اس كے برعكس: وہ اس طرح كہ اگر كوئى شخص ايسے ملك سے جہاں چاند ايك بعد ميں نظر آتا ہو، ايسے ملك منتقل ہو جہاں اس ملك سے پہلے چاند نظر آ چكا ہو، تو وہ عيد الفطر ان كے ساتھ ہى منائے گا اور رمضان كے جو روزے اس كے رہ گئے ہيں ان كى بعد ميں قضاء كرے گا، اگر اس كا ايك روزہ رہتا ہے تو ايك روزہ قضاء ميں ركھے گا، اور اگر دو روزے رہتے ہوں تو دو روزوں كى قضاء كرے گا، اگر اس نے اٹھائيس روزوں كے بعد عيد الفطر منائى ہو اور دونوں ملكوں ميں رمضان المبارك تيس دن كا ہوا ہو تو وہ دو روزے قضاء ميں ركھے گا، اور اگر دونوں يا كسى ايك ملك ميں رمضان المبارك انتيس دن كا ہوا ہو تو ايك روزہ قضاء ميں ركھے گا.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 24 ).
اور يہ سوال بھى دريافت كيا گيا:
كوئى قائل يہ بھى كہہ سكتا ہے:
پہلى حالت ميں آپ نے تيس ايام سے زيادہ روزے ركھنے كا كيوں كہا اور دوسرى حالت ميں قضاء كرنے كا كيوں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
دوسرى حالت ميں قضاء كرے گا كيونكہ مہينے كا انتيس دن سے كم ہونا ممكن نہيں، اور تيس سے زيادہ اس ليے كرے گا كيونكہ چاند نظر نہيں آيا پہلى حالت ميں ہم نے اسے يہ كہا تھا كہ:
عيد الفطر منا لو چاہے انتيس يوم پورے نہ بھى ہوئے ہوں؛ كيونكہ چاند نظر آگيا ہے، اورجب چاند نظر آ جائے تو عيد الفطر منانا ضرورى ہے، يہ ممكن ہى نہيں كہ ہم شوال كے ايك دن كا روزہ بھى ركھ ليں، اورجب آپ نے انتيس يوم سے كم روزے ركھے تو آپ كے ليے انتيس يوم پورے كرنا لازم تھا، دوسرى حالت كے برخلاف اس ليے كہ آپ ابھى تك رمضان كے مہينہ ميں ہيں جب آپ اس ملك ميں منتقل ہوئے اور وہاں چاند نظر نہيں آيا تو آپ رمضان كے مہينہ ميں ہى ہيں تو آپ روزہ كيسے چھوڑ سكتے ہيں ؟
لہذا آپ كو روزہ كى حالت ميں ہى باقى رہنا ہو گا، اور جب آپ پر مہينہ كے دن زيادہ ہو جائيں تو وہ دن ميں گھنٹے زيادہ ہونے كى طرح ہى ہے.
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 38101 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
واللہ اعلم .