"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
وضوء ميں سر كا مسح كرنے كا طريقہ كيا ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
وضوء ميں دھونے يا مسح كى كيفيت واجب نہيں، بلكہ دھوئے جانے والے اعضاء كا دھونا، اور مسح والے اعضاء كا مسح كرنا واجب ہے، چاہے وہ كسى بھى كيفيت ميں ہو، ليكن اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت كى پيروى كرنا افضل اور اكمل ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 171 ).
دوم:
وضوء ميں سر كا مسح كرنے كى دو كيفيتيں وارد ہيں:
پہلى:
ہاتھ گيلے كر كے سر كے اگلے حصہ پر ركھ كر گدى تك مسح كيا جائے، اور پھر سر كے اگلے حصہ تك ہاتھ واپس لائے جائيں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے مسلم كى شرح ميں اس كيفيت كے مستحب ہونے پر سب علماء كا اتفاق بيان كيا ہے.
اس كا ثبوت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايك احاديث ميں ملتا ہے:
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وضوء كے طريقہ ميں حديث بيان كى ہے جس ميں ہے:
" ...... پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر كا مسح كيا، اپنے ہاتھوں كو اگلے حصہ سے پچھلے حصہ تك لے گئے، سر كے شروع سے مسح كيا حتى كہ انہيں گدى تك لے گئے، پھر جہاں سے مسح شروع كيا وہيں واپس لے آئے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 185 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 235 ).
اور ابو داود نے معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے لوگوں كے سامنے اس طرح وضوء كيا جس طرح انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو وضوء كرتے ہوئے ديكھا تھا:
" چنانچہ جب وہ سر پر پہنچے تو ايك چلو پانى ليكر اپنے بائيں ہاتھ كو ملايا اور سر كے وسط ميں ركھا حتى كہ پانى كے قطرے گرنے لگے، يا قريب تھا كہ قطرے گريں، پھر انہوں نے سر كے شروع سے ليكر آخر تك اور آخر سے ليكر شروع تك مسح كيا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 124 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابو داود رحمہ اللہ نے ہى مقدام بن معدى كرب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو وضوء كرتے ہوئے ديكھا:
" جب وہ سر پر پہنچے تو انہوں نے اپنى دونوں ہتھيلياں سر كے شروع ميں ركھيں اور انہيں گدى تك سر پر پھيرا، پھر انہيں وہيں واپس لے آئے جہاں سے شروع كيا تھا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 122 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ طريقہ اس كے ليے مناسب ہے جس كے بال چھوٹے ہوں، اور ہاتھ سر كے شروع ميں واپس لانے سے بال نہ بكھريں.
دوسرى كيفيت:
پورے سر كا مسح كرے ليكن بالوں كى جانب، اس طرح كہ اس كے بالوں كى حالت نہ بدلے.
يہ طريقہ اس شخص كے مناسب ہے جس كے بال لمبے ہوں ـ مرد ہو يا عورت ـ اس طرح كہ ہاتھ واپس لانے سے بال بكھرنے كا خدشہ ہو.
ربيع بنت معوذ بن عفراء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے پاس وضوء كيا اور سارے سر كا مسح كيا بالوں كى چوٹى سے ليكر كر سر كے نچلے حصہ تك، بالوں كو ان كى حالت سے حركت نہ دى "
مسند احمد حديث نمبر ( 26484 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 128 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
قرن الشعر: بالوں كى چوٹى سے مراد سر كا اوپر والا حصہ ہے، يعنى سر كے اوپر سے مسح شروع كرے اور نيچے كى جانب جائے.
كل ناحيۃ: ہرجانب سے مراد يہ ہے كہ لمبائى اور چوڑائى ميں سارے سر كا مسح كرے.
لمنصب الشعر: اس جگہ كو كہتے ہيں جس كى جانب نيچے جايا جائے اور وہ سر كا نيچلا حصہ ہے.
عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كا معنى يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سر كے اوپر والے حصہ سے مسح شروع كرتے اور نيچے تك جاتے، يہ سارى جانب سے كرتے. انتہى.
بالوں كو اپنى حالت سے بدلتے نہيں تھے: جس حالت پر تھے اسى پر رہتے.
ابن رسلان كا كہنا ہے:
يہ كيفيت اس شخص كے ليے مخصوص ہے جس كے بال لمبے ہوں، كيونكہ جب پانى جڑوں تك پہنچانے كے ليے ہاتھ واپس لائے جائيں تو بال بكھر جائيں گے اور اسے بال بكھرنے سے ضرر ہوگا.
امام احمد رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا كہ: عورت اور لمبے بالوں والا شخص سر كا مسح كيسے كرے ؟
تو ان كا جواب تھا:
" اگر چاہے تو وہ اس طرح مسح كرے جيسے ربيع رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے، اور پھر وہ حديث بيان كى، پھر كہنے لگے: اس طرح اور اپنے دونوں ہاتھ سر كے درميان ركھے پھر انہيں اپنے سر كے آگے لے آئے، پھر انہيں اٹھا كر وہاں ركھا جہاں سے شروع كيا تھا ( يعنى انہيں سر كے وسط ميں ركھ ليا ) پھر انہيں پيچھے كى جانب لے گئے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہاں قرن يعنى چوٹى سے مراد سر كا اگلا ہو، يعنى انہوں نے سر كے اگلے حصہ سے سارے سر كا ہر جانب سے بالوں تك جو كہ سر كا پچھلا حصہ ہے تك مسح كيا.
يعنى سر كے شروع سے آخر تك ايك بار مسح كيا، اور ہاتھ واپس نہيں لائے، كيونكہ اس سے بالوں كى كيفيت تبديل ہو جاتى ہے، ربيع رضى اللہ تعالى عنہا نے كہا كہ: وہ اپنے بالوں كى كيفيت كو تبديل نہ كرتے .
ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود، نيل الاوطار ( 1 / 189 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 1 / 178 ).
حاصل يہ ہوا كہ: اس طريقہ پر وہ شخص عمل كرے جس كے بال لمبے ہوں اور اسے ان كے بكھرنے كا خدشہ ہو، چنانچہ وہ اپنے بالوں كا مسح اس جانب كرے جس جانب وہ گرے ہوں، تا كہ ان كى حالت ميں تبديلى نہ آئے.
واللہ اعلم .