"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر والد کے پاس دولت بھی ہو اور اپنے گھرانے کے لیے تمام بنیادی اور شرعی ضرورت کی چیزیں بھی دستیاب رکھے، پھر بھی والد کے پاس رقم بچ جائے اور اسے خرچ اس لیے نہ کرے کہ دینی طور پر واجب ذمہ داری اس نے ادا کر دی ہے، اس لیے اپنے بچوں کے لیے استطاعت ہونے کے باوجود کوئی بھی آسائش کی چیز نہ خریدے، تو ایسے والد کو ہم کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ کیونکہ بچے اس چیز کو محسوس کرتے ہیں، اس لیے کہ والد کسی بچے کی عمدہ کارکردگی پر معمولی کیک بھی نہیں خریدتا ، اور دلیل یہ دیتا ہے کہ یہ اضافی اخراجات اور آسائشوں میں آتا ہے جو کہ شرعاً واجب نہیں ہے!؟
شریعت نے رشتہ داروں اور اولاد کے ساتھ مالی استطاعت کے مطابق ان کی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب دلائی ہے، تاہم اگر والدین کی جانب سے کچھ آسائشی چیزیں فراہم نہ کی جائیں تو اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی، اس لیے بچوں کو اس پر منفی رد عمل نہیں دینا چاہیے، عام طور پر اس کا فائدہ فوری یا آئندہ کسی وقت بھی بچوں کو ہی ہو گا۔
الحمد للہ.
اول:
بچوں کے اخراجات والد کے ذمہ ہیں، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “تمام علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ آدمی اپنے ان بچوں کے اخراجات کا ذمہ دار ہے جن کے پاس دولت نہیں ہے، اور اس پر بھی اجماع ہے کہ بچے کا نان و نفقہ اور رضاعت کی اجرت والد کے فوت ہو جانے پر ، والد کے مال سے ہی ادا کی جائے گی، بشرطیکہ والد کا مال ہو ۔” ختم شد
“الإجماع” (98)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اہل علم میں سے ہم جس سے بھی علم حاصل کرتے ہیں سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدمی پر اس کی اپنی غریب اولاد کا نان و نفقہ واجب ہے ، ویسے بھی اولاد انسان کا ہی حصہ ہوتی ہے، اور انسان اپنی اولاد کا حصہ ہوتا ہے، تو جس طرح انسان اپنے آپ اور اہل خانہ پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے اسی طرح اپنی اولاد اور والدین پر بھی خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے۔” ختم شد
“المغنی” (8/212)
علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ:
“ضرورت کے وقت کسی پر خرچ کرنا اسے زندگی بخشنے کے مترادف ہے، تو اولاد والد کا جگر گوشہ ہوتی ہے، اب جس طرح اپنے آپ کو زندہ رکھنا واجب ہے، اسی طرح اپنے جگر گوشے کو بھی زندہ رکھنا واجب ہے۔
اس اعتبار سے نان و نفقہ کی ذمہ دو طرفہ واجب ہوتی ہے۔
نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس رشتے کو جوڑنا فرض ہے؛ توڑنا بالاجماع حرام ہے، تو نان ونفقہ کی ذمہ داری صلہ رحمی میں آتی ہے اس لیے باپ اور اولاد کے درمیان نان و نفقہ واجب ہے، لہذا اگر کسی ایک کے پاس مالی استطاعت ہو اور دوسرے کو کفالت کی ضرورت بھی ہو لیکن صاحب استطاعت دوسرے کی کفالت نہ کرے تو یہ قطع رحمی واقع ہو گی ؛ جو کہ حرام ہے۔” ختم شد
“بدائع الصنائع” (5/2230)
دوم:
شریعت نے خرچ کرنے کی مقدار متعین نہیں کی؛ کیونکہ سب لوگوں کے وسائل یکساں نہیں ہوتے، اسی طرح ہر علاقے کا خرچ کرنے کے حوالے سے عرف بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ تو جہاں معاملہ ایسا ہو تو شریعت اسے عرف کے مطابق حل کرنے کی ترغیب دلاتی ہے؛ لہذا معاشرے اور سماج کے عرف کے مطابق اولاد پر خرچ کرنا واجب ہو گا، اس خرچ میں کھانے، پینے اور لباس جیسی بنیادی ضروریات شامل ہوں گی اور اسی طرح بنیادی تعلیم اور شادی وغیرہ کے اخراجات بھی والد کے ذمہ ہو ں گے۔
اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہند رضی اللہ عنہا کو فرمان ہے کہ: (تم اتنا خرچہ خود ہی لے لو جو آپ اور آپ کے بچوں کو عرف کے مطابق کافی ہو۔) بخاری: (5364)
سوم:
واجب اخراجات پورے کرنے کے بعد اگر والد کے پاس مزید کی استطاعت بھی ہے تو مزید خرچ کرنا اسی احسان میں شامل ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے قرابت داروں کے ساتھ احسان کا حکم دیا، اب قرابت داروں میں سب سے پہلے اولاد آتی ہے، احسان کا مرحلہ عدل یعنی واجبات کی ادائیگی کے بعد اگلا مرحلہ ہے ، جبکہ اللہ تعالی نے عدل اور احسان دونوں کا حکم دیتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کا خصوص طور پر ذکر فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی عدل ، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ [النحل: 90]
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“احسان ، عدل سے بڑا درجہ ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں ہے کہ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ [النحل: 90] تو جب لفظ “احسان” بولا جائے گا تو بسا اوقات اس سے مراد شریعت کے مطابق عمل لیا جاتا ہے چاہے وہ مطابق واجب عمل کی صورت میں ہو، اور بسا اوقات اس سے مراد واجب سے آگے بڑھ کر کارکردگی پیش کرنا ہوتا ہے۔” ختم شد
“تفسير ابن عثیمین /فاتحہ و سورت بقرہ” (1/169)
ابن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی نے یہاں قرابت داروں کو دینے کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے، اگرچہ عدل و احسان کے عمومی حکم میں یہ بھی شامل تھا، لیکن ان کا حق زیادہ ہے، ان کے ساتھ صلہ رحمی ضروری ہے اور اس پر ترغیب دلانا مقصود ہے اس لیے ان کا ذکر الگ سے کیا، اس میں قریبی اور دور کے سب ہی رشتہ دار شامل ہیں، تاہم جو جس قدر قریب ہو گا وہ اتنا ہی حسن سلوک کا حقدار ہو گا۔” ختم شد
“تفسیر سعدی” (ص447)
جیسے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے صریح حکم کے بعد واضح لفظوں میں رشتہ داروں کا ذکر فرمایا: وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى… ترجمہ: اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں اور قرابت داروں کے ساتھ بھی۔۔۔[النساء: 36]
اس بنا پر اولاد کے ساتھ صرف واجبات کی تکمیل نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اولاد پر کھلا خرچ کرتے ہوئے “احسان” پر عمل پیرا ہوا جائے گا، اللہ تعالی نے احسان کرنے والوں سے خود محبت کرنے کا ذکر فرمایا ہے، وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ترجمہ: اور اللہ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ [آل عمران: 134]
جیسے کہ متعدد احادیث اور آثار ایسے ملتے ہیں جن میں اہل خانہ اور بچوں کے بارے میں ہاتھ کھلا رکھنے کی ترغیب ہے۔
جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آدمی کا خرچ کیا ہوا افضل ترین دینار وہ ہے جو وہ اپنے بچوں پر خرچ کرے، پھر وہ دینار بھی افضل ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی سواری پر خرچ کرے، پھر وہ دینار ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے دوستوں پر خرچ کرے۔ ) حدیث کے راوی ابو قلابہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں آغاز ہی بچوں سے کیا ہے۔ پھر کہتے ہیں: اس شخص سے بڑے اجر والا کون ہو سکتا ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرے، انہیں ہاتھ پھیلانے سے بچائے، اور اللہ تعالی اس کے ذریعے بچوں کا بھلا فرما دے۔ ” مسلم: (994)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا منقول ہے کہ: (ایک شخص ایک دینار اللہ کی راہ میں خرچ کرے، اور ایک دینار غلام آزاد کروانے میں خرچ کرے، پھر ایک دینار کسی مسکین کو صدقہ دے دے، اور ایک دینا اپنے گھر والوں پر خرچ کر ے، تو ان سب میں زیادہ اجر والا دینار وہ ہے جو آپ اپنے اہل خانہ پر خرچ کریں۔) مسلم: (995)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (جب اللہ تعالی تمہیں کھلا عطا فرمائے تو تم بھی کھل کر خرچ کرو۔) صحیح بخاری: (358)
بلا شبہ والد کا اپنی اولاد کے ساتھ احسان کرنا، ان پر خرچ کرتے ہوئے کنجوسی نہ کرنا باپ اور اولاد کے درمیان محبت بڑھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے؛ کیونکہ انسان کے ساتھ جو بھی بھلائی کرے گا انسان اس سے فطری طور پر محبت کرنے لگ جائے گا۔
بچوں پر احسان اس وقت مزید ضروری ہو جاتا ہے جب کوئی مناسبت بھی ہو، مثلاً: بچوں میں سے کوئی پاس ہو جاتا ہے، یا پورا قرآن کریم یا کچھ حصہ مکمل کر لیتا ہے، یا بالغ ہو جاتا ہے وغیرہ تو ایسے میں خوشی کا اظہار ضروری ہو جاتا ہے، پھر اس خوشی کے اظہار کے بچوں کی نفسیات پر بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں؛ ایسے اظہار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، اسی لیے تو کھانے کی متعدد اقسام کی دعوتیں شریعت کا حصہ ہیں، مثلاً: بچے کی ولادت پر عقیقہ، یا شادی پر ولیمہ وغیرہ، اسی طرح تکمیل قرآن پر بھی بعض اہل علم نے کھانے کی دعوت کو مستحب قرار دیا ہے، تو اظہار خوشی بھی مفید تربیتی طریقہ کار ہے۔
سوم:
سوال میں مذکور آسائشی چیزوں کے متعلق والد کا موقف یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی چیزوں سے روکنا بھی تربیت کا حصہ ہے کہ انسان بہت زیادہ عیش پرست نہ ہو جائے، اور ان کا عادی نہ بن جائے۔ ممکن ہے کہ والد کا اس انداز سے سوچنا درست یا غلط ہو، لیکن بہ ہر حال والد کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے، والد اپنے ذمہ واجب اخراجات پورے کرنے کی جد و جہد کرتا ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے، ہم ان کی اس کد و کاوش کو شکریہ اور احسان مندی کے ساتھ دیکھیں؛ کیونکہ بہت سے والد اپنی ضروریات سے زائد مال کو بچوں کے مستقبل کے لیے جمع کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ خود ان سے مزے اڑائے بلکہ بچوں کے لیے پونجی جمع کرتا ہے، ایسے میں والد کا یہ اقدام حقیقی معنوں میں قابل تعریف اور ستائش ہے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ اہل و عیال کے ساتھ تعلق محض واجبات کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں باہمی محبت، مودت، حسن معاشرت، حسن سلوک، صلہ رحمی، درگزری کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، خصوصاً والدین کے متعلق۔
پھر یہ بھی ہے کہ اولاد کو بڑے ہونے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ان کا والد ان کے ساتھ بالکل صحیح کیا کرتا تھا، اور وہ سب کچھ ہماری ہی بہتری کے لیے تھا۔
عام طور پر والدین اپنا خیال اتنا نہیں کرتے جتنا اولاد کا کرتے ہیں، اس لیے گھر کے افراد کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ ایسے اقدامات سے بچوں کو جھلملانا نہیں چاہیے، اور پھر ابو درداء رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (والد جنت کا بہترین دروازہ ہے، اب تیری مرضی کہ تو اس دروازے کو ضائع کر یا اس کی حفاظت کر۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1900) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (914) میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم