"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
دو ركعت كے بعد سلام پھير كر درج ذيل دعا پڑھنے كا حكم كيا ہے: " سبحانك ربنا وبحمدك اللهم اغفر لنا " ؟
الحمد للہ.
نماز تراويح ميں ہر دو ركعت كے بعد ان الفاظ ميں دعا كى سنت نبويہ ميں كوئى ثبوت نہيں ملتا، اس ليے امام كو ايسا نہيں كرنا چاہيے اور نہ ہى مقتدى كو، كيونكہ دعا توقيف پر مبنى ہے، اس ليے وہ مشروع ہو گى جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كى ہے، اور بغير كسى دليل كے كسى معين عبادت كو معين وقت ميں ادا كرنا بدعت اور دين ميں نئى چيز ايجاد كرنے ميں شامل ہوتا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ كام مردود ہے "
متفق عليہ.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عظيم دعا يہ تھى:
" سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي "
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ركوع اور سجود ميں اكثر يہ دعا پڑھا كرتے تھے:
" سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي "
اے اللہ ہمارے پروردگار تو پاك ہے، اور تيرى ہى تعريف ہے تو مجھے بخش دے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 784 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 484 ).
اور وہ قرآن كى تاويل كرتے تھے: كا معنى يہ ہے كہ قرآن مجيد نے جو حكم ديا ہے اس پر عمل كرتے تھے، اور وہ اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:
جب اللہ كى مدد اور فتح آ جائے، اور آپ لوگوں كو اللہ كے دين ميں جوق در جوق آتا ديكھ لے تو اپنے رب كى تسبيح لگ جائيں حمد كے ساتھ اور اس سے مغفرت طلب كريں بيشك وہ بڑا ہى توبہ قبول كرنے والا ہے النصر ( 1 - 3 ).
آپ ديكھيں كہ يہاں سنت كو كس طرح ترك كر كے بدعات كو رواج دے كر اس كى پابندى كى جانے لگى ہے.
اور تراويح ميں جو بدعات كى جاتى ہيں ان ميں لوگوں كا يہ قول بھى شامل ہے: " صلاۃ القيام اثابكم اللہ " اللہ تعالى آپ كو اجر سے نوازے نماز قيام ادا كرو.
اور ہر دو ركعت كى ادائيگى كر كے بلند آواز سے اللہم صلى على سيدنا محمد پڑھنا.
اور ہر دو ركعت كے درميان سورۃ الاخلاص اور قل اعوذ برب الفق اور قل اعوذ برب الناس كى تلاوت كرنا، يا امام كا سبحان اللہ پڑھنا، اور مقتديوں كا امام كے ساتھ مل كر سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظيم كہنا.
يہ سب كچھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہے، اس ليے مستقل فتوى كميٹى نے فتوى ديتے ہوئے كہا ہے كہ يہ نئى ايجاد اور بدعت ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 208 - 215 ).
واللہ اعلم .