"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اوراس میں وراثت کی تقسیم میں بھی تغییر پایا جاتا ہے کہ بعض مستحقین کو محروم اورغیرمستحق کو مستحق قرار دیا جاتا ہے اوراسی طرح حرام کوحلال اورحلال چيز کوحرام کرنا پایاجاتا ہے ، مثلا نکاح اورخلوت وغیرہ اوراسی طرح دوسری حرمتوں کوتوڑا جاتا اورحدوداللہ سے تجاوز کیا جاتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے بچے کی والدکے علاوہ کسی اورکی طرف نسبت کرنا حرام قراردیتے ہوئے فرمایا :
{ اورتمہارے لے پالک لڑکوں کوتمہارے حقیقی بیٹے نہيں بنایا ہے ، یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے ، اوروہ سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔
منہ بولے بیٹوں کوان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک مکمل انصاف تویہی ہے ، وہ تمہارے دینی بھائي اوردوست ہیں تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئي گناہ نہيں ، البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے } الاحزاب ( 4-5 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ علم رکھتے ہوئے کسی اورکی طرف نسبت کی تو اس پر جنت حرام ہے ) اسے بخاری اورمسلم اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ کسی اورکی نسبت کا دعوی کیا یا اپنے اولیاء کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب ہوا اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالی کی لعنت ہے ) ۔
لھذا فتوی لینے والے کا مذکورہ نام کے بارہ میں اجتھاد غلط ہے اوراس پرجمے رہنا جائز نہيں بلکہ اسے اس کی حرمت میں وارد شدہ نصوص کی بنا پر بدلنا اورصحیح کرنا ضروری ہے ، ان نصوص اوردلائل کواوپربیان کیا جاچکا ہے ۔
لیکن لاوارث بچے پر مہربانی اوراس کی حسن تربیت اوراس پراحسان کرنا ایک نیکی اوراچھا کام ہے ، اورشریعت اسلامیہ نے ایسا کرنے کی ترغیب بھی دلائي ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
واللہ اعلم .