"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں اپنے والد كے ساتھ سفر پر گيا اور ايك دن رہنے كے بعد واپس آگئے كيا اس دن ہم نمازيں جمع اور قصر كر كے ادا كريں يا كہ جمع نہيں بلكہ قصر كرينگے ؟
الحمد للہ.
اول:
اہل علم رحمہم اللہ قصر كرنے كى مدت ميں اختلاف ہے اگر محدود مدت كا قيام ہو تو قصر وگرنہ نماز پورى ادا كرنا ہو گى اس ميں بہت سے اقوال ہيں: مذاہب اربعہ كے مطابق اگر مسافر كى مدت اقامت تين يوم ہو تو وہ سفر كى رخصت پر عمل كر سكتا ہے.
ابن رشد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور ان كا اس مدت اقامت ميں اختلاف جس ميں مسافر نماز قصر كر سكتا ہے بہت زيادہ ہے، اس ميں ابو عمر يعنى ابن عبد البر رحمہ اللہ نے تقريبا گيارہ اقوال بيان كيے ہيں، ليكن ان ميں سے مشہور وہ ہيں جن پر فقھاء امصار ہيں اور اس ميں ان فقھاء كے تين اقوال ہيں:
پہلا قول:
امام مالك اور اماما شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہ ہے كہ اگر مسافر چار يوم كے قيام كا عزم كرے تو وہ نماز پورى ادا كرے گا.
دوسرا قول:
امام ابو حنيفہ اور سفيان ثورى رحمہ اللہ كا مسلك يہ ہے كہ جب وہ پندرہ يوم كى اقامت كا ارادہ ركھے تو نماز پورى ادا كرے گا.
تيسرا قول:
امام احمد اور داود رحمہما اللہ كا مسلك يہ ہے كہ اگر وہ چار يوم سے زيادہ اقامت كا ارادہ كرے تو نماز پورى ادا كرے گا.
اس ميں اختلاف كا سبب يہ ہے كہ: شرع اس معاملہ ميں ساكت ہے، اور تحديد پر قياس سب كے ہاں ضعيف ہے، اسى ليے يہ سب اس پر مائل ہيں كہ انہوں نے اپنے مذہب كے ليے ان احوال سے استدلال كيا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول ہيں كہ آپ نے اس مدت قيام ميں نماز قصر كى، يا پھر اسے مسافر كا حكم بنايا.
ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 1 / 122 - 123 ).
اس بنا پر صورت مسئولہ ميں ايك روز مدت قيام ميں نماز قصر كرنے كے متعلق آئمہ كرام كا كوئى اختلاف نہيں.
دوم:
رہا نمازيں جمع كرنے كا مسئلہ: اگر تو وہ راستے ميں ہے تو اس كے ليے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء جمع كرنا افضل ہے يا تو جمع تقديم كرے يا پھر جمع تاخير اسے جس ميں آسانى ہو كر سكتا ہے.
اور اگر وہ پڑاؤ ڈال چكا ہے ( مثلا جو شخص اپنى منزل پر پہنچ گيا ہو يا پھر كچھ دير آرام كرنے كے ليے راستے ميں اترا ہو ) تو اس كے ليے افضل يہ ہے كہ نمازيں جمع نہ كرے، اور اگر جمع كر لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ دونوں طرح ہى جائز ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ: " فى سفر قصر " قصر كے سفر ميں، اس كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ مسافر كے ليے نمازيں جمع كرنى جائز ہيں، چاہے وہ راستے ہيں ہو يا پڑاؤ كر چكا ہو، اور علماء كرام كے ہاں يہ مسئلہ اختلافى ہے.
ان ميں سے كچھ كا كہنا ہے كہ: مسافر كے ليے اس وقت نمازيں جمع كرنى جائز ہونگى جب وہ چل رہا ہو، نہ كہ پڑاؤ كى حالت ميں ہو.
انہوں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى اس حديث سے استدلال كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب سفر ميں چل رہے ہوتے تو نمازيں جمع كرتے "
اور اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر منى ميں نمازيں جمع نہيں كيں، كيونكہ آپ پڑاؤ كى حالت ميں تھے، وگرنہ اس ميں تو كوئى شك نہيں كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں تھے؛ اس ليے كہ آپ نماز قصر كر رہے تھے ...
دوسرا قول:
مسافر كے ليے نمازيں جمع كرنى جائز ہيں، چاہے وہ سفر ميں ہو يا پڑاؤ كر چكا ہو.
انہوں درج ذيل امور سے استدلال كيا ہے:
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پڑاؤ كى حالت ميں غزوہ تبوك كے موقع پر نمازيں جمع كى تھيں.
2 - صحيحين ميں ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث مروى ہے كہ:
" حجۃ الوداع كے موقع پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابطح ميں پڑاؤ كيا، ايك روز آپ سرخ جبہ پہنے ہوئے نكلے اور لوگوں كو ظہر اورعصر كى نماز دو دو ركعت پڑھائى "
ان كا كہنا ہے كہ جديث كا ظاہر بتاتا ہے كہ يہ دونوں نمازيں جمع كى گئى تھيں.
3 - درج ذيل حديث ابن عباس كا عموم:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء كى نمازيں مدينہ ميں بغير كى خوف اور بارش كے جمع كيں "
4 - جب بارش وغيرہ كے ليے جمع كرنا جائز ہے، تو سفر كى وجہ سے بالاولى جمع كرنا جائز ہے.
5 - مسافر كے ليے ہر نماز وقت ميں ادا كرنے پر مشقت ہے، يا تو تھكاوٹ كى بنا پر يا پھر پانى كى قلت كے باعث يا كسى اور سبب سے.
اور صحيح يہ ہے كہ مسافر كے ليے نمازيں جمع كرنى جائز ہيں، ليكن جو سفر ميں ہے اس كے ليے مستحب اور جو پڑاؤ كر چكا ہے اس كے جائز ہے مستحب نہيں، اگر جمع كرلے تو كوئى حرج نہيں، اور اگر جمع نہ كرے تو يہ افضل ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 387 - 390 ).
مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر ( 50312 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .