"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
بنك سے قرض حاصل كرنے ميں كسى بھائى كا ضامن بننے ميں اسلام كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
اگر تو قرض سودى ہو ( جيسا كہ اكثر بنكوں ميں ہوتا ہے ) يعنى اس طرح كہ بنك اس قرض پر فائدہ لے تو پھر آپ كے ليے قرض حاصل كرنے والے كا ضامن بننا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں بنك اور قرض حاصل كرنے والے دونوں كا سود ميں تعاون ہے جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے اور اس كى حرمت پر مسلمانوں كا اجماع ہے.
مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
سودى بنك سے قرض حاصل كرنے والے كى كفالت ( ضامن بننا ) كرنے كا كيا حكم ہے؟
كميٹى كا جواب تھا:
جب واقع ايسا ہى ہو جيسا كہ بيان كيا گيا ہے كہ بنك قرض پر فائدہ لے اور پھر مينجر يا اكاؤٹنٹ اور نہ ہى خزانچى كے ليے اس كا تعاون كرنا جائز نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ اور دشمنى و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المائدۃ ( 2 )
اور اس ليے كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے اور اسے لكھنے والے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى ہے اور فرمايا يہ سب برابر ہيں"
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 410 ).
واللہ اعلم .