"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
يہ حديث امام ترمذي رحمہ اللہ نے زيد بن خالد الجھني رضي اللہ تعالي عنہ سے روايت كي ہے وہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( جس نے بھي كسي روزہ دار كا روزہ كھلوايا اسے اس ( روزہ دار) جتنا ہي اجرو ثواب حاصل ہوگا اور روزہ دار كےاجروثواب ميں كچھ كمي نہيں كي جائےگي ).
علامہ الباني رحمہ اللہ نے صحيح ترمذي ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور يہ حديث عام ہے جس ميں ہرروزہ دار چاہے وہ مالدار ہو يا فقير شامل ہے اور اس ميں قريبي رشتہ دار وغيرہ بھي شامل ہوتےہيں .
ديكھيں: فيض القدير للمناوي حديث نمبر ( 8890 ) كي شرح
بلكہ بعض اوقات قريبي رشتہ دار اورعزيز كي افطاري كروانا زيادہ اجرو ثواب كا باعث ہوگا اس ليے كہ اس سے افطاري كروانے كا ثواب بھي حاصل ہو گا اور صلہ رحمي كا بھي اجرملےگا، ليكن جب رشتہ دار كےعلاوہ كوئي دوسرا شخص فقير ہو اور افطاري كےليے اس كےپاس كچھ نہ ہو تو اس حالت ميں اس فقير كي افطاري كروانا زيادہ اجروثواب كا باعث ہوگا كيونكہ اس ميں اس كي ضرورت وحاجت پوري ہورہي ہے .
يہ اسي طرح ہے جس طرح قريبي رشتہ دار فقير شخص پر صدقہ كرنا كسي غير رشتہ دارفقير سے زيادہ افضل ہے .
امام ترمذي اور ابن ماجۃ رحمہما اللہ تعالي نے سلمان بن الضبي رضي اللہ تعالي عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
( مسكين شخص پر صدقہ كرنا صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پر دو ايك تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمي ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابن ماجۃ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي نے فتح الباري ميں كہاہےكہ:
" يہ لازم نہيں كہ قريبي رشتہ دار كوہبہ ( يعني قريبي كوہديہ دينا ) كرنا مطلقاافضل وبہتر ہے كيونكہ يہ احتمال ہےكہ ہوسكتا ہے مسكين محتاج اور ضرورتمند ہو اور اس سے اسے نفع دينا متعدي ہو اور دوسرا اس كےبرعكس اھ كچھ كمي وبيشي كےساتھ
خلاصہ يہ ہےكہ:
قريبي رشتہ دار كي افطاري كروانا بھي نبي صلي اللہ عليہ وسلم كےاس فرمان ( جس نے كسي روزہ دار كي افطاري كروائي اسے بھي اس كےاجروثواب جتنا ہي ملےگا ) ميں شامل ہے، بلكہ بعض اوقات كسي دوسرے كي بجائے قريبي رشتہ دار كي افطاري كرواني زيادہ اجروثواب كا باعث ہے اور بعض اوقات اس كےبرعكس، ہر ايك كي ضرورت كےحساب اور اس كي افطاري پر مرتب شدہ مصالح كےاعتبار سے .
واللہ اعلم .