اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كم يا زيادہ ہونے والى جمع شدہ رقم كى زكاۃ كيسے ادا كى جائے گى ؟

22-09-2007

سوال 50801

بنك ميں ركھى جانے والى رقم ايك جيسى ہى نہيں رہتى، يعنى سال كے دوران اس ميں كمى يا زيادتى ممكن ہے، تو اس كى زكاۃ كس طرح ادا كى جائے گى ؟ جبكہ وہ رقم صرف جمع كرنے كے ليے ہى مخصوص نہيں، اور سال كے دوران كبھى كم اور كبھى زيادہ ہوتى رہتى ہے، تو اس رقم كى تحديد كيسے ہو گى جس پر سال مكمل ہوا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب يہ رقم نصاب كو پہنچ جائے اور اس پر سال مكمل ہو جائے تو اس پر زكاۃ واجب ہو جاتى ہے، چاہے وہ رقم جمع رہنے كے ليے ہو يا نہ.

اور زكاۃ كا نصاب پچاسى گرام ( 85 ) سونا، يا پانچ سو پچانوے گرام ( 595 ) چاندى كے برابر رقم ہے.

اور اس ميں سے زكاۃ كى مقدار اڑھائى فيصد ہو گى.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2795 ) كا جواب ديكھيں.

اس ليے اگر دوران سال مال نصاب سے كم ہو جائے تو سال منقطع ہو جائے گا، اور اس ميں زكاۃ واجب نہيں ہو گى، اور جب مال نصاب كو پہنچے تو پھر نئے سرے سے سال شروع ہو گا.

اور اگر مال دوران سال كچھ نہ كچھ زيادہ ہوتا رہے تو اس ميں تفصيل ہے:

اول:

اگر تو ( نيا ) حاصل ہونے والا مال پہلے مال كا نتيجہ ہے مثلا جمع كردہ مال كا ـ اسلامى مصارف سے حاصل ہونے والا ـ منافع تو اصل پر سال مكمل ہونے كى صورت ميں سارے مال كى زكاۃ دى جائے گى، چاہے منافع پر سال مكمل نہ بھى ہوا ہو بلكہ اسے چند يوم ہى ہوئے ہوں، اسى ليے فقھاء كا كہنا ہے كہ: منافع كا سال اصل مال كا سال ہى شمار ہو گا.

دوم:

اور اگر حاصل ہونے والا مال پہلے مال كا نتيجہ نہيں، بلكہ وہ مستقل مال ہے، مثلا وہ مال جو انسان اپنى تنخواہ سے جمع كرتا ہے، تو اصل يہ ہے كہ ہر مال كے ايك مستقل اور عليحدہ سال بنايا جائے، اور اس نئے مال كے حصول ميں نصاب كى شرط نہيں ہو گى؛ كيونكہ پہلے مال ميں نصاب موجود ہے.

اور اس بنا پر آپ نے جو مال رمضان المبارك ميں جمع كيا تھا اس كى آئندہ رمضان ميں زكاۃ ادا كريں، اور جو شوال ميں جمع كرايا اس كى آئندہ شوال ميں زكاۃ ادا كريں، اور اسى طرح باقى بھى.

اس ميں كوئى شك نہيں كہ انسان كے ليے ايسا كرنا اور جمع كردہ ہر مال كے ليے عليحدہ حساب ركھنا مشكل اور مشقت كا كام ہے، اسى طرح اس كے ليے ہر جمع كردہ مال كى اس كا سال پورا ہونے پر اس كى عليحدہ زكاۃ نكالنا بھى مشكل ہے، لہذا اس كے ليے آسان يہ ہے كہ وہ پہلے جمع كردہ مال كا سال مكمل ہونے پر ہى سارے سال ميں جمع كردہ مال كى بھى زكاۃ ادا كر دے.

تو اس طرح آپ نے اس مال كى بھى زكاۃ ادا كردى جس كا ابھى سال مكمل بھى نہيں ہوا اور ايسا كرنے ميں حرج بھى كوئى نہيں، بلكہ يہ سال پورا ہونے سے قبل ہى جلد زكاۃ ادا كرنے ميں شامل ہوتا ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 26113 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، اور وہاں ہم نے مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا اس كے متعلق فتوى بھى نقل كيا ہے فائدہ كے ليے ہم اسے دوبارہ يہاں بھى نقل كرتے ہيں:

" جس كى ملكيت ميں نصاب كو پہنچنے والى نقد رقم ہو اور پھر مختلف اوقات ميں اس كى ملكيت اور اور بھى رقم آتى رہى ہو، اور يہ رقم پہلى رقم كے نتيجہ ميں نہ ہو اور اس پيدا شدہ نہ ہو، بلكہ اس كى حيثيت مستقل ہو مثلا ايك ملازم اپنى ہر تنخواہ سے كچھ رقم ماہانہ بچا كر جمع كرے، يا پھر وراثت يا ہبہ يا جائداد اور مكانات كا كرايہ وغيرہ.

اگر وہ اس كے حق كى تہہ تك پہنچنے كا حريص ہے، اور وہ صرف اتنى زكاۃ ہى مستحقين كو دينا چاہتا ہے جو اس كے مال ميں واجب ہے، تو اسے چاہيے كہ وہ اپنے حساب كتاب كا ايك شيڈول بنائے جس ميں اس طرح كى سارى آمدن كى ملكيت كے سال كى ابتداء ظاہر كرے، اور پھر وہ ہر مال پر جيسے ہى اس كا سال مكمل ہو اس كى عليحدہ زكاۃ ادا كرے.

اور اگر وہ اس كام سے راحت اور آرام چاہتا ہو اور وہ درگزر اور فياضى كا راستہ اختيار كرے، اور وہ اپنے آپ پر فقراء و مساكين كو ترجيح دينے پر اس كا دل راضى ہو؛ تو اپنى ملكيت ميں سارى نقدى كى زكاۃ اسى وقت ادا كر دے جب پہلے مال كے نصاب پر سال مكمل ہوتا ہو، اور اس ميں اجروثواب بھى زيادہ ہے، اور درجات كى بلندى ہے، اور پھر راحت بھى، اور فقراء و مساكين اور باقى مصارف زكاۃ كے حقوق كا بھى خيال ہے، اور اس سے جو زيادہ ہو وہ اس كى زكاۃ شمار ہو گى جس كا ابھى سال بھى پورا نہيں ہوا اس كى زكاۃ پہلے ہى ادا ہو جائے گى" انتہى

ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 280 ).

واللہ اعلم .

زکاۃ کس میں واجب ہے
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔