"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
بيٹا پيدا ہونے كى صورت ميں عقيقہ كے احكام كيا ہونگے ؟
الحمد للہ.
عقيقہ: بچہ پيدا ہونے كے ساتويں روز جو جانور ذبح كيا جائے اسے عقيقہ كہا جاتا ہے، دور جاہليت ميں عرب كے ہاں يہ معروف چيز تھى.
الماوردى كہتے ہيں:
رہا عقيقہ تو ولادت كے وقت جانور ذبح كرنے كو عقيقہ كہتے ہيں، اور يہ چيز اسلام سے قبل عرب كے ہاں پائى جاتى تھى "
ديكھيں: الحاوى الكبير ( 15 / 126 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح احاديث ميں عقيقہ كى مشروعيت ثابت ہے، جن ميں سے چند ايك احاديث ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" دور جاہليت ميں جب ہمارے ہاں كسى ايك كا بچہ پيدا ہوتا تو وہ ايك بكرا ذبح كر كے اس كا خون بچے كے سر كو ملتا، اور جب اللہ تعالى اسلام لے آيا تو ہم بكرا ذبح كرتے اور بچے كا سر مونڈتے اور بچے كے سر كو زعفران ملتے تھے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2843 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور زعفران خوشبو كى ايك قسم ہے.
2 - سلمان بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بچہ پيدا ہونے كے ساتھ عقيقہ ہے، تو تم اس كى جانب سے خون بہاؤ اور اس كى گندگى دور كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5154 ).
بچہ پيدا ہو تو اس كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرا ذبح كرنا مشروع ہے، جيسا كہ صحيح اور صريح دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں، ان دلائل ميں چند ايك يہ ہيں:
2 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بچے كى جانب سے پورى دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرنے كا حكم ديا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1513 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3163 ) صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 1221 ).
3 - ام كرز رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقيقہ كے متعلق دريافت كيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بچے كى جانب سے دو بكرياں اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ہے، اس ميں كوئى نقصان نہيں كہ وہ بكرا ہو يا بكرى "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1516 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح قرار ديا ہے، سنن نسائى حديث نمبر ( 4217 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 4 / 391 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ احاديث عقيقہ ميں بچہ اور بچى كے درميان فرق ميں تفصيل واضح كرتى ہيں.
علامہ ابن قيم رحمہ اللہ نے بچہ اور بچى كى اس تفصيل كى تعليل بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" اور يہ شرعى قاعدہ ہے كہ: اللہ سبحانہ و تعالى نے بچے اور بچى كے درميان فرق ركھا ہے، اور بچى كو بچے كو وراثت اور ديت اور گواہى اور آزادى اور عقيقہ ميں نصف ركھا ہے، جيسا كہ ترمذى رحمہ اللہ نے امامہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو مسلمان شخص بھى كسى مسلمان غلام كو آزاد كريگا تو وہ اس كے ليے آگ سے آزادى كا باعث ہے، اس كا ہر عضو اس كے عضو سے كفائت كريگا، اور جو مسلمان شخص بھى دو غلام مسلمان عورتوں كو آزاد كريگا تو وہ دونوں اس كے ليے جہنم كى آگ سے آزادى كا باعث ہونگى، ان دونوں كا ہر عضو اس كے عضو سے كفائت كريگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1547 ) تو اسى طرح يہ فضيلت اور فرق صريح سنت كے مطابق عقيقہ ميں بھى جارى ہے، اور يہ كيوں نہ ہو حالانكہ صحيح سنت سے بچى اور بچے ميں فرق صريح اور واضح موجود ہے " انتہى.
ديكھيں: تحفۃ المودود صفحہ ( 53 - 54 ).
اور ايك دوسرى جگہ پر ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے مرد كو عورت پر فضيلت دى ہے جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور لڑكا لڑكى جيسا نہيں آل عمران ( 36 ).
اس فرق كا تقاضا ہے كہ احكام ميں بھى اس كى توجيہ كى جائے، شريعت مطہرہ نے يہ فرق كرتے ہوئے مرد كو گواہى اور ميراث اور ديت ميں دو عورتوں كے برابر كيا ہے، تو اس احكام ميں عقيقہ كو بھى ملايا جائے جائيگا " انتہى.
ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 331 ).
فائدہ:
ابن قيم رحمہ اللہ كے قول كا خلاصہ:
عقيقہ كے فوائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ قربانى ہے جس كے ذريعہ بچہ كى دنيا ميں آمد كے بعد سب سے پہلے اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا ہے....
اور اس كے فوائد ميں يہ بھى شامل ہے:
يہ بچے كو گروى اور رہن سے چھٹكارا اور آزادى دلاتا ہے، كيونكہ بچہ عقيقہ كے ساتھ رہن اور گروى ركھا ہوا ہے حتى كہ عقيقہ كر كے اسے آزاد كرايا جائے.
اور اس كے فوائد ميں يہ بھى شامل ہے:
يہ فديہ ہے جو بچے كا فديہ ديا جاتا ہے جس طرح اللہ سبحانہ و تعالى نے اسماعيل عليہ السلام كے فديہ ميں مينڈھا ديا تھا " انتہى.
ديكھيں: تحفۃ المودود صفحہ ( 69 ).
عقيقہ كا سب سے بہترين اور افضل وقت ولادت كے ساتويں روز ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ گروى اور رہن ركھا ہوا ہے، اس كى جانب سے ساتويں روز ذبح كيا اور اس مونڈا جائے، اور نام ركھا جائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2838 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اگر ساتويں روز سے تاخير بھى ہو جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، جب بھى مسلمان عقيقہ كرنے كى استطاعت ركھے تو اسے عقيقہ كرنا چاہيے.
واللہ اعلم .