"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
بعض علماء كرام كوئى بھى عبادت كر كے اس كا ثواب فوت شدگان كو ہبہ كرنے كے جواز كے قائل ہيں، اور بعض علماء كہتے ہيں كہ صرف وہى عبادات كى جاسكتى ہيں جو بالنص احاديث ميں وارد ہيں.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
زندہ اشخاص كى جانب سے كونسى اشياء ميت كے ليے نفع مند ہيں ؟
اور كيا بدنى اور غير بدنى عبادات ميں كوئى فرق ہے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ اس مسئلہ كى وضاحت فرمائيں، اور ہمارے كوئى ايسا اصول اور قاعدہ وضع كريں كہ اس طرح كے مسائل ميں مشكل پيش آنے كے وقت ہم اس كو اپنا سكيں.
شيخ نے جواب ديا:
زندہ اشخاص كى جانب سے ميت كو وہ چيز نفع دے سكتى ہے جس كى كوئى دليل ثابت ہو، اور وہ عام دعاء ہے يا بخشش كى دعا، يا پھر ميت كى جانب سے صدقہ و خيرات، اور حج يا عمرہ، يا اس كے ذمہ قرض كى ادائيگى، اور اس كى شرعى وصيت كى تنفيذ، ان سب اشياء كى مشروعيت پر احاديث ميں دلائل موجود ہيں.
اور بعض علماء نے ہر وہ فعل بھى ملحق كيا ہے جو اللہ كے قرب كے ليے مسلمان شخص كرتا ہے، اس كا ثواب بھى كسى زندہ يا مردہ شخص كو ہبہ كيا جا سكتا ہے.
ليكن صحيح يہى ہے كہ اسى پر اقتصار كرنا چاہيے جو بالنص احاديث ميں وارد ہيں، اور يہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان كے ساتھ مخصوص ہو جائيگا:
اور انسان كے ليے وہى كچھ ہے جو اس نے كوشش كى النجم ( 39 ).
واللہ اعلم بالصواب.
ديكھيں: المنتقى ( 2 / 161 ).
اور والدين كے متعلق خصوصا يہ ہے كہ:
شريعت نے اولاد كو والد كى كمائى قرار ديا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مومن كى موت كے بعد اس كے اعمال اور نيكيوں ميں سے جو اسے پہنچتا رہتا ہے وہ علم ہے جو اسنے كسى كو سكھايا ہو، يا نشركيا، اور نيك اور صالح اولاد چھوڑى ہو، اور قرآن وراثت ميں چھوڑا ہو، يا مسجد بنائى ہو يا مسافروں كے ليے مسافرخانہ تعمير كروايا ہو، يا نہر كھدوائى ہو، يا صحت اور تندرستى اور زندگى ميں اپنے مال سے صدقہ و خيرات كيا ہو تو يہ اس كى موت كے بعد بھى اس تك پہنچتا رہتا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 242 ) صحيح ابن خزيمہ ( 4 / 121 ) ابن خزيمہ نے اسے صحيح اور علامہ منذرى اور علامہ البانى نے اسے حسن قرار ديا ہے، جيسا كہ صحيح الترغيب ( 1 / 18 ) ميں ہے.
سنن ابن ماجہ كے حاشيہ پر سندھى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نيك اور صالح اولاد كو عمل اور اچھى تعليم شمار كرنا اسطرح ہے كہ والد ہى اولاد كے وجود اور اس كى اصلاح اور نيكى وہدايت كى طرف راہنمائى كا سبب ہے، جيسا كہ نفس عمل كو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں بنايا گيا ہے:
يقينا اس كے عمل صحيح نہيں " انتہى.
اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اولاد جو بھى نيك اور صالح اعمال كرتى ہے اس كا اجروثواب والدين كو بھى ملتا ہے، اور دونوں ميں سے كسى كے اجروثواب ميں كمى نہيں ہوتى؛ كيونكہ اولاد والدين كى كوشش اور كمائى كا نتيجہ ہيں، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
ہر انسان كے ليے وہى كچھ ہے جو اس نے كوشش كى النجم ( 39 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سب سے بہتر اور اچھى وہ چيز ہے جو آدمى اپنى كمائى سے كھاتا ہے اور يقينا بيٹا اس كى كمائى ميں سے ہے "
اسے سنن اربعہ نے روايت كيا ہے، اور شيخ البانى رحمہ اللہ نے اسے شواہد كے ساتھ صحيح قرار ديا ہے " انتہى.
ديكھيں: احكام الجنائز ( 126 - 217 ).
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
فوت شدہ يا زندہ والدين كے ليے كونسے اعمال نفع مند ہيں ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اعمال يہ ہيں:
ان كى زندگى ميں ان سے حسن سلوك كا برتاؤ كرنا، اور قول و عمل ميں ان سے احسان اور اچھا برتاؤ، اور ان كى رہائش و خرچ وغيرہ كى ضروريات پورى كرنا، ان دونوں كے ساتھ اچھى كلام كرنا، اور ان كى خدمت بجا لانا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تيرے رب كا فيصلہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كرو اور والدين كے ساتھ حسن سلوك كرو الاسراء ( 23 ).
خاص كر جب والدين بوڑھے ہو جائيں تو ان كى جتنى خدمت ہو سكے كى جائے.
اور ان كى موت كے بعد بھى ان كے ساتھ نيكى اور حسن سلوك كا برتاؤ باقى رہتا ہے، وہ اس طرح كہ ان كے ليے دعاء كى جائے، اور ان كى جانب سے صدقہ و خيرات اور حج و عمرہ كيا جائے، اور ان كے ذمہ قرض كى ادائيگى كى جائے، اور ان كے رشتہ داروں اور دوست و احباب كے ساتھ اچھا برتاؤ اور صلہ رحمى كى جائے، اور ان كى جانب سے مشروع وصيت پر عمل كيا جائے " انتہى.
ديكھيں: المنتقى ( 2 / 162 ).
دوم:
رہا عورتوں كے متعلق اعتكاف كا مسئلہ تواس كے بارہ ميں گزارش ہے كہ:
اعتكاف مرد اور عورت دونوں كے ليے مستحب ہے، ليكن عورتوں كے ليے يہ ضرورى ہے كہ وہ اپنے اہل و عيال اور خاوند كى اجازت كے بغير اعتكاف نہ بيٹھيں، اور ان كے اعتكاف كرنے ميں كوئى فتنہ نہ ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" چنانچہ عورت اس وقت اعتكاف بيٹھے گى جب اس كے اعتكاف كرنے ميں كوئى فتنہ نہ ہو، اور اگر اس كے اعتكاف كرنے ميں فتنہ ہو تو پھر اسے اعتكاف بيٹھنے نہيں ديا جائيگا؛ كيونكہ جب كسى مستحب چيز كے نتيجہ ميں كوئى ممنوع چيز مرتب ہو تو اس سے ركنا واجب ہے، جس طرح كسى مباح چيز كے نتيجہ ميں كوئى ممنوعہ چيز مرتب ہوتى ہو تو اس سے بھى ركنا واجب ہے.
اگر ہم فرض كريں كہ عورت مسجد ميں اعتكاف كرے تو وہاں فتنہ ہو جيسا كہ مسجد حرام ميں ہے، كيونكہ مسجد حرام ميں عورتوں كے اعتكاف كے ليے كوئى مخصوص جگہ نہيں، اور جب عورت اعتكاف كريگى تو وہ ضرور سوئےگى، چاہے رات كو سوئے يا دن كے وقت، اور آنے جانے والے مردوں كے درميان عورت كا سويا ہوا ہونا فتنہ ہے.
عورتوں كے ليے اعتكاف كى مشروعيت كى دليل يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى اور آپ كى وفات كے بعد بھى اعتكاف كرتى رہيں ہيں، ليكن اگر فتنہ كا خدشہ ہو تو عورت كو اعتكاف كرنے سے منع كيا جائيگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تواس سے بھى كم چيز ميں منع فرما ديا تھا.
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اعتكاف كرنے لگے اور ايك روز نكلے تو ديكھا كہ ايك خيمہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اور ايك خيمہ فلان عورت كا اور ايك خيمہ فلان عورت كا لگا ہوا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" كيا يہ نيكى كرنا چاہتى ہيں ؟! "
پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سب خيموں كو اكھاڑنے كا حكم دے ديا، اور اس سال خود بھى اعتكاف نہ كيا، بلكہ شوال كے مہينہ ميں بطور قضاء اعتكاف كيا.
يہ اس بات كى دليل ہے كہ اگر عورت كے اعتكاف كرنے ميں فتنہ ہو تو بالاولى اسے منع كيا جائيگا " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 510 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
انسان موت آنے سے قبل اپنے ليے خود ہى زيادہ سے زيادہ اعمال صالحہ سرانجام دے لے، كيونكہ موت كے بعد اس كے اعمال منقطع ہو جائينگے، اور ان اعمال ميں سے اس كے والدين كو اس كے اجروثواب كا حصہ حاصل ہوگا، ليكن كسى كے اجروثواب ميں كچھ بھى كمى نہيں ہوگى، نہ تو اولاد كے اجروثواب ميں اور نہ ہى والدين كے اجروثواب ميں.
اور اعتكاف بھى اعمال صالحہ ميں سے ہے، اور عورت كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اعتكاف اس طرح كرے جو شرعى قواعد و ضوابط كے مطابق ہو، جيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى كلام ميں بيان ہوا ہے.
واللہ اعلم .