"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
صرف تجارتى زمين ميں زكاۃ ہے، اس ليے وہ زمين جس پر آپ نے گھر تعمير كرنا ہے اس پر زكاۃ نہيں، ليكن دوسرے پلاٹ ميں زكاۃ ہو گى.
اور زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا كہ ہر برس كے آخر ميں اس پلاٹ كى اندازا قيمت لگائى جائے اور اس قيمت سے اڑھائى فيصد زكاۃ نكال دى جائے.
اور ہر برس زكاۃ نكالنى واجب ہے، ان سب سالوں كى صرف ايك برس ہى زكاۃ نكالنا كافى نہيں ہو گى.
ايك چيز كى تنبيہ ضرورى ہے كہ جب تجارتى سامان آپ سونے يا چاندى يا نقدى ( ريال، يا ڈالر يا دوسرى كرنسى ) يا كسى اور سامان كے ساتھ خريديں؛ تو سامان كا سال اس مال اور قيمت كا سال ہو گا جس سے وہ چيز خريدى گئى ہے، تو اس بنا پر سامان كى خريدارى كے وقت سے كوئى نيا سال نہيں شروع ہو گا، بلكہ جس مال كے ساتھ وہ زمين خريدى گئى ہے اس كے سال كو ہى مكمل كيا جائے گا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 32715 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ميرے پاس كچھ رقم ( مثلا پچاس ہزار ) ہے جس سے ميں نے زمين كا ايك پلاٹ خريدا ميرا يہ ذہن ہے كہ يہ پيسے بنك ميں پڑے رہنے سے بہتر ہے كہ اس سے زمين خريدى جائے اور يہ رقم محفوظ ہو جائے، اور جب مناسب وقت ہو يا مجھے رقم كى ضرروت پڑے تو ميں يہ زمين فروخت كر دوں، اور اس كى قيمت زيادہ ہو چكى ہو گى تو كيا اس پر زكاۃ ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" جس شخص نے بھى زمين خريدى يا وہ كسى عطيہ كى بنا پر مالك بنا يا اسے پلاٹ الاٹ كر ديا گيا اور اس كى نيت تجارت كى ہو تو جب اس پر سال مكمل ہو تو اس پر زكاۃ واجب ہو گى، اور وہ ہر برس زكاۃ واجب ہونے كے وقت اس كى قيمت لگوائے اور اس كى قيمت سے اڑھائى فيصد زكاۃ نكال دے "
ليكن اگر اس نے وہ زمين رہائش كى نيت سے خريدى تو اس ميں زكاۃ واجب نہيں ہو گى، ليكن جب وہ بعد ميں اس كى تجارت كى نيت كر لے تو اس تجارت كى نيت پر سال مكمل ہونے سے زكاۃ واجب ہو گى، اور اگر اس نے اجرت پر دينے كى نيت سے خريدى تو زكاۃ اس كى اجرت پر ہو گى اگر اجرت نصاب كو پہنچے اور اس پر سال مكمل ہو جائے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 339 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:
زمين وغيرہ كى زكاۃ كس طرح نكالى جائے گى ؟
اور كيا اسے فروخت كے وقت سب سالوں كى صرف ايك زكاۃ ہى كافى ہو گى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب زمين وغيرہ مثلا گھر اور گاڑى وغيرہ تجارت كے ليے تيار كى گئى ہو تو ہر برس اس پر سال مكمل ہونے كے وقت قيمت كے حساب سے زكاۃ نكالى جائے گى، اور اس ميں تاخير كرنى جائز نہيں، ليكن اگر مال نہ ہونے كى بنا پر وہ زكاۃ نكالنے سے معذور ہو تو اسے اسے فروخت كرنے تك كى مہلت دى جائے گى، اور فروخت كے بعد وہ ان سب برسوں كى زكاۃ ادا كرے گا، اور ہر برس پورا ہونے كے وقت كى قيمت كے حساب سے زكاۃ ادا كرنا ہو گى، چاہے اس كى قيمت قيمت خريد سے كم ہو يا زيادہ، ميرى مراد يہ ہے كہ جس قيمت سے اس نے گھر يا گاڑى يا زمين خريدى تھى.
جمہور اہل علم كے ہاں يہى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے تجارت كے ليے تيار كردہ چيز پر زكاۃ نكالنے كا حكم ديا ہے، اور اس ليے بھى كہ تجارتى اموال منافع حاصل كرنے كے ليے مختلف قسم كے سامان سے بدلے جاتے ہيں، اس ليے مسلمان شخص پر اس كى ہر برس زكاۃ نكالنا واجب ہے، جيسا كہ اگر اس كے پاس يہ رقم ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 160 ).
واللہ اعلم .