"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
تقريبا چھ برس سے ميں ہونٹوں ميں جلدى مرض كا شكار ہوں، اگر پانى استعمال كروں تو ہونٹ بہت زيادہ پھٹ جاتے ہيں، اور ان كا رنگ سفيد ہو جاتا ہے، اس ليے مجھے وضوء كرنے ميں مشكل پيش آتى ہے، تو كيا ميرے ليے مذكورہ حالت ميں تيمم كرنا جائز ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو شفايابى عطا فرمائے اور عافيت سے نوازے.
دوم:
اگر وضوء كرنے سے پانى ميں آپ كے ہونٹوں كو نقصان اور ضرر پہنچتا ہے تو آپ كے ليے اتنا چہرہ دھونا ضرورى ہے جتنى استطاعت ركھ سكتے ہيں، اس كے علاوہ وضوء كے باقى اعضاء بھى دھوئيں، پھر آپ كلى ترك كرنے اور ہونٹوں كا نہ دھونے كے بدلے تيمم كر ليں، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تو تم حسب استطاعت اللہ كا تقوى اختيار كرو التغابن ( 16 ).
آپ وضوء سے قبل يا وضوء كے بعد تيمم كر سكتے ہيں.
ليكن بالكل ہى وضوء نہ كرنا اور تيمم پر اكتفاء كرنا آپ كے ليے جائز نہيں، بلكہ يہاں صحيح اعضاء كا دھونا اور تيمم دونوں كو جمع كرنا ضرورى ہے.
اور جو كچھ وضوء ميں كہا گيا غسل ميں بھى وہى كلام ہوگى، تو اس طرح آپ كو اپنا سارا بدن اور جس قدر اپنا چہرہ دھو سكتے ہيں دھونا ہوگا، اور اس كے ساتھ تيمم بھى كريں.
زاد المستقنع ميں ہے:
" اور جو شخص زخمى ہو، وہ اس پر تيمم كرے اور باقى دھو لے " انتہى.
يعنى جو شخص زخمى ہو اور زخم والى جگہ دھو نہ سكتا ہو تو وہ اس كے ليے تيمم كر لے، اور باقى صحيح اعضاء دھو لے.
اس ميں اصل يہ ہے كہ: جسے كوئى زخم ہو يا جل جائے، يا وضوء كے اعضاء ميں سے كسى عضو ميں كوئى اور علت ہو تواس كے چار مرتبے ہيں:
پہلا:
وہ مكشوف ہو اور دھونے سے اسے كوئى ضرر اور نقصان كا انديشہ نہ ہو، تو اسے دھونا واجب ہے.
دوسرا:
وہ مكشوف تو ہو ليكن دھونے سے ضرر اور نقصان ہوتا ہو، ليكن مسح كيا جا سكتا ہے، تو اس پر مسح كرنا لازم ہوگا.
تيسرا:
وہ مكشوف ہو اور اسے دھونا اور اس پر مسح كرنا نقصان دہ اور اس ميں ضرر ہو، تو يہاں زخم كى بنا پر تيمم كرے اور باقى وضوء كے اعضاء دھو لے.
چوتھا:
وہ كسى پٹى وغيرہ كے ساتھ چھپا ہوا ہو، تو اس پٹى پر مسح كيا جائيگا، تو اس طرح اس كا وضوء مكمل ہے، اور وہ تيمم نہيں كريگا "
ديكھيں: فتاوى اركان الاسلام للشيخ ابن عثيمين ( 234 ) بتصرف
شيخ ابن باز رحمہ للہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص كے ہاتھ ميں زخم ہے اور وہاں پانى نہيں لگا سكتا، اور اس نے وضوء كيا اور تيمم كرنا بھول گيا اور اس نے نماز ادا كر لى تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر تو وہ زخم وضوء والى جگہ ميں ہو اور اسے نہ تو دھونا ممكن ہو اور نہ ہى اس پر مسح كرنا ممكن ہو؛ كيونكہ ايسا كرنے سے يہ زخم اور زيادہ ہو جائيگا، يا پھر اس كے مندمل ہونے ميں تاخير ہوگى، تو اس شخص كے ليے تيمم كرنا ضرور ہے.
لہذا جس شخص نے زخم والى جگہ چھوڑ كر باقى وضوء مكمل كيا اور نماز كے دوران اسے ياد آيا كہ اس نے تيمم نہيں كيا تو وہ تيمم كرے اور نماز دوبارہ ادا كرے كيونكہ اس كى تيمم سے قبل ادا كردہ پہلى نماز صحيح نہيں "...انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 197 ).
واللہ اعلم .