اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

امام سرى نماز ميں قرآت لمبى كرے تو مقتدى كيا كرے ؟

01-01-2011

سوال 69846

سرى نماز ميں مقتدى پہلى اور دوسرى ركعت ميں سورۃ فاتحہ اور اس كے ساتھ سورۃ پڑھنے، اور تيسرى اور چوتھى ركعت ميں سورۃ فاتحہ پڑھنے كے بعد خاموش رہے يا اگر خاموش نہ رہے تو كيا پڑھے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سرى نماز ميں نمازى كے ليے پہلى اور دوسرى ركعت ميں سورۃ فاتحہ اور قرآن مجيد سے جو ميسر ہو پڑھنا مشروع ہے، چاہے وہ امام ہو يا مقتدى اس كى دليل ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

" ہم ظہر اور عصر كى نماز ميں امام كے پيچھے پہلى اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ اور دوسرى كوئى سورۃ، اور آخرى دو ركعت ميں سورۃ فاتحہ پڑھا كرتے تھے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 843 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نمازى ـ امام يا مقتدى ـ پہلى دونوں ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ سے اكثر قرآت كرے گا؛ اس كى دليل بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" ميں ان ايك جيسى سورتوں كى جانتا ہوں جو رسول كريم صلى اللہ وسلم ملا كر ايك ہى ركعت ميں پڑھا كرتے تھے، چنانچہ انہوں نے مفصل سورتوں ميں سے بيس سورتوں كا ذكر كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 775 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 822 ).

ان سورتوں ميں سے يہ ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورۃ الرحمن، اور سورۃ النجم ايك ركعت ميں جمع كيں، اور سورۃ القمر، الحاقۃ اور سورۃ الطور، الذاريات، اور سورۃ الواقعۃ، القلم جمع كر كے پڑھيں.

ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم للالبانى ( 104 ).

سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى اور سورۃ پڑھنے پر بخارى كى درج ذيل حديث بھى دلالت كرتى ہے جو " باب الجمع بين السورتين فى الركعۃ " ايك ركعت ميں دو سورتوں كو جمع كرنے كے باب ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك انصارى آدمى مسجد قباء ميں ان كى امامت كروايا كرتا تھا، اور جب بھى وہ نماز ميں قرآت كرتا تو " قل ہو اللہ احد " مكمل سورۃ پڑھنے كے بعد اس كے ساتھ كوئى اور سورۃ پڑھتا، يہ ہر ركعت ميں كيا كرتا تھا، چنانچہ اس كے ساتھيوں نے اس سے بات كى اور اسے كہنے لگے:

تم اس سورۃ سے قرآت كى ابتدا كرتے ہو اور پھر اس كو كافى نہيں سمجھتے بلكہ اس كے ساتھ كوئى اور سورۃ بھى پڑھتے ہو، يا تو يہى سورۃ پڑھا كرو، يا پھر اسے چھوڑ كر كوئى اور سورۃ پڑھ ليا كرو.

تو اس صحابى نے جواب ديا: ميں تو اسے نہيں چھوڑ سكتا، اگر تم پسند كرتے ہو تو ميں تمہارى امامت كرواتا ہوں، اگر ناپسند كرتے ہو تو چھوڑ ديتا ہوں، وہ لوگ اسے اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اور انہوں نے اس كے علاوہ كسى اور كى امامت كروانے كو پسند نہ كيا.

چنانچہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس تشريف لائے تو انہوں نے آپ كو يہ قصہ بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يا فلاں: آپ كو جو كچھ تيرے دوست كہتے ہيں اس چيز كے كرنے ميں كونسى چيز مانع ہے ؟ اور وہ كيا چيز ہے جو تجھے ہر ركعت ميں يہ سورۃ پڑھنے پر ابھارتى ہے ؟

تو اس صحابى نے جواب ميں عرض كيا:

بلا شبہ ميں اس سورۃ سے محبت كرتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اس سے تيرى محبت نے تجھے جنت ميں داخل كر دے گى "

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 403 ) بھى ديكھيں.

دوم:

اور آخرى دو ركعتوں ميں اصل تو يہى ہے كہ ان ميں صرف سورۃ فاتحہ كى قرآت پر ہى اقتصار كيا جائے، كيونكہ مسلم كى روايت ہے كہ:

ابو قتادہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ظہر اور عصر كى پہلى دو ركعتوں ميں سورۃ الفاتحہ اور ايك سورۃ كى قرآت كيا كرتے تھے، اور بعض اوقات ہميں سنا بھى ديا كرتے تھے، اور آخرى دو ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى تلاوت كرتے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 451 ).

اصل يہى ہے، اور نماز كے ليے آخرى دو ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ كے بعد بعض اوقات كوئى اور سورۃ بھى پڑھنى جائز ہے، اس كى دليل مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ظہر كى پہلى دو ركعتوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں تقريبا تيس آيتوں كے برابر قرآت كيا كرتے تھے، اور آخرى دو ركعتوں ميں تقريبا پندرہ آيات كے برابر، يا كہا: اس سے نصف، اور عصر كى پہلى دو ركعتوں ميں ہر ركعت ميں پندرہ آيات كے برابر، اور آخرى دو ركعتوں ميں اس سے نصف قرآت كرتے تھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 452 ).

شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس حديث ميں دليل ہے كہ آخرى دو ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى اور سورۃ پڑھنا سنت ہے، اور صحابہ كرام كى ايك جماعت اسى پر ہے ان ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ شامل ہيں، اور امام شافعى رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے، چاہے نماز ظہر ہو يا كوئى اور، ہمارے متاخرين علماء كرام نے بھى اسے ہى ليا ہے، مثلا ابو الحسنات لكھنوى " انتہى

ماخوذ از: صفۃ الصلاۃ ( 113 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

جب نمازى سرى نماز ميں سورۃ فاتحہ اور دوسرى سورۃ كى قرآت سے فارغ ہو اور امام ابھى ركوع ميں جائے تو كيا مقتدى خاموش رہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" مقتدى جب سورۃ فاتحہ اور دوسرى سورۃ كى قرآت سے فارغ ہو جائے تو امام كے ركوع سے قبل خاموش نہ ہو، بلكہ امام كے ركوع جانے تك قرآت كرتا رہے، حتى كہ اگرچہ پہلى تشھد كے بعد والى دو ركعت ہى كيوں نہ ہوں اور وہ سورۃ فاتحہ كى قرآت سے فارغ ہو جائے اور امام ركوع ميں نہ گيا ہو تو وہ دوسرى سورۃ كى قرآت كرے حتى كہ امام ركوع ميں چلا جائے؛ كيونكہ امام كى قرآت كى سماعت كے وقت كے علاوہ نماز ميں خاموشى نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 108 ).

واللہ اعلم .

نماز میں تلاوت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔