"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اگر خاوند بيوى كو گھريلو اخراجات كے ليے محدود مبلغ ديتا ہوں اور بيوى اپنى بہتر تدبير كے ليے ذريعہ اس ميں سے كچھ نہ كچھ بچا كر ركھ لے كہ آئندہ مستقبل ميں كام آئيگا، تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ وہ ايسا كرنے پر شكريہ كى مستحق ہے، ليكن ايك شرط ہے كہ:
1 ـ اس ميں خاوند كے ليے دھوكہ يا جھوٹ نہ ہو، مثلا خاوند سے ايسى اشياء كا مطالبہ كرے جن كى انہيں ضرورت نہ ہو، اور پھر وہ اشياء نہ خريدے بلكہ اس كے پيسے جمع كر لے، يا پھر غير ضرورى اشياء كى خريدارى ميں مبالغہ سے كام لے اور پيسے ملنے كى صورت ميں ان اشياء ميں سے تھوڑى بہت خريد كر باقى پيسے جمع كر لے، اس ميں جھوٹ اور دھوكہ ہے يہ نہيں ہونا چاہيے.
2 ـ پيسے جمع كرنے ميں اولاد اور خاوند كو تنگى كا سامنا نہ كرنا پڑے، كيونكہ خاوند نے اسے يہ پيسے تو گھريلو ضروريات كى خريدارى كے ليے ديے ہيں.
3 ـ جمع كردہ رقم عموما گھريلو مصلحت كے ليے ہو نہ كہ ذاتى مصلحت كے ليے، يا پھر اس ليے جمع كرے كہ اس سے ايسى اشياء خريد سكے جو خاوند پسند نہيں كرتا، اگر اس ليے ہو تو پھر جمع كرنا صحيح نہيں ہوگا.
4 ـ خاوند نے اسے پيسے جمع كرنے سے منع نہ كر ركھا ہو، كيونكہ يہ مال خاوند كى ملكيت ہے، اور وہ اس مال كے تصرف ميں آزاد ہے.
اس ليے جب مندرجہ بالا شروط پائى جائيں تو بيوى نے جو كچھ جمع كر ركھا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ حسن تدبير ميں شامل ہوگا.
رہا بيوى كى اپنى تنخواہ ميں سے پيسے جمع كرنا تو اسے جمع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ تنخواہ تو بيوى كى اپنى ملكيت ہے خاوند كى نہيں، اس ليے وہ اس ميں جس طرح چاہے تصرف كر سكتى ہے.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 21684 ) اور ( 48952 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .