"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
خاوند كے ليے ضرورى اور لازم نہيں كہ وہ اپنى بيوى كو شادى سے قبل بتائے كہ اس نے پہلے بھى شادى كى ہے يا نہيں، ليكن يہ ہے كہ اگر بيوى دريافت كرتى اور يہ پوچھنے كى رغبت ركھتى ہے تو پھر اس سے چھپانا نہيں چاہيے.
دوم:
عورت كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز نہيں، الا يہ كہ اگر اس كا كوئى شرعى سبب ہو مثلا سوء معاشرت اور برا سلوك اور نقصان و ضرر كا حصول وغيرہ.
اس كى دليل ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو بھى حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ كہ خاوند نے پہلے بھى شادى كى تھى اور بيوى سے يہ بات مخفى ركھى يہ ايسا سبب نہيں ہے كہ جس كى بنا پر بيوى كو طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہو جائے، اس ليے بيوى كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرے اور اللہ سے توبہ كرتے ہوئے اپنے اس مطالبہ سے باز آ جائے، اور بيوى كو نصيحت كرنى چاہيے كہ وہ ايسا مت كرے، اس كے ليے آپ اپنے خاندان يا پھر بيوى كے گھر والوں ميں سے كسى شخص كو اختيار كريں جو اسے نصيحت كر كے مطمئن كرے.
سوم:
اور اگر طلاق ہو جائے تو اگر مہر باقى رہتا ہے تو وہ اسے ادا كيا جائيگا، اور اگر طلاق رجعى ہو تو پھر عدت كے عرصہ ميں اس كا نان و نفقہ بھى خاوند كے ذمہ ہے، اس كے علاوہ اسے كچھ حاصل نہيں ہوگا.
بيوى جو يہ سمجھتى اور گمان ركھتى ہے كہ اس سے دھوكہ ہوا ہے اور اسے اس كا مالى معاوضہ ادا كيا جائے، ايسى كوئى چيز اسے حاصل كرنے كا حق حاصل نہيں ہے، اور شريعت ميں اس طرح كى كوئى چيز نہيں.
واللہ اعلم .