"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
عقد نكاح كے وقت آپ كى حاضرى لازم نہيں، بلكہ اہم چيز تو آپ كى رضامندى ہے كہ آپ اس نكاح پر راضى ہوں اس كے ليے آپ كى لكھى ہوئى اجازت كافى ہے.
دوم:
بلكہ اہم يہ ہے كہ آپ كا ولى يا اس كا وكيل نكاح ميں حاضر ہو، كيونكہ ولى كے بغير عورت كا نكاح صحيح نہيں ہوتا، اس كى دليل درج ذيل فرمان نبوى ہے:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور آپ كا يہ كہنا كہ ميرے گھر والے اس نكاح كے مخالف نہيں، ليكن انہيں نكاح كے ہونے كا علم نہيں ہے.
اس سے يہ سمجھ آ رہى ہے كہ آپ كا ولى عقد نكاح كے وقت موجود نہ تھا، اور نہ ہى ولى كا وكيل نكاح كے وقت حاضر تھا، اگر يہ معاملہ ايسے ہى ہے تو پھر يہ عقد نكاح صحيح نہيں، بلكہ آپ كو ولى اور دو گواہوں كى موجودگى ميں نكاح دوبارہ كرنا ہوگا.
يہ حكم اس صورت ميں ہے جب آپ كا ولى مسلمان ہو يعنى باپ يا بھائى وغيرہ دوسرے ولى، يكن اگر مسلمان ولى نہيں تو پھر آپ كا ولى مسلمان قاضى بنےگا، اور اگر مسلمان قاضى اور جج بھى نہيں تو پھر اسلامك سينٹر كا چئير مين يا امام مسجد ولى بنےگا.
اور پھر آپ نے اپنے گھر والوں كے دين كے بارہ ميں كچھ بيان نہيں كيا كہ آيا وہ مسلمان ہيں يا نہيں.
اس بنا پر اگر آپ كے ولى ميں كوئى بھى مسلمان نہيں تو پھر جس صورت ميں نكاح ہوا ہے وہ صحيح ہے، اور اگر آپ كا كوئى ولى مسلمان ہے تو پھر آپ كےليے ولى كى موجودگى ميں يا پھر ولى كے وكيل كى موجودگى ميں نكاح دوبارہ كرنا ہو گا.
واللہ اعلم.