"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ايك برس سے ميرى منگنى ايك لڑكى كے ساتھ ہوئى اور ہر چيز پر اتفاق بھى ہو چكا ہے، ليكن اب منگنى كا عرصہ طويل ہوتا جا رہا ہے، ميں اس كے ساتھ عقد نكاح كرنا چاہتا ہوں ليكن اس كے گھر والے انكار كر رہے.
ان كا كہنا ہے ابھى وہ تعليم حاصل كر رہى ہے يونيورسٹى كى تعليم مكمل ہونے تك مجھے تين برس كا انتظار كرنا ہو گا، اس كے بعد عقد نكاح اور شادى ہو گى ! ! !
مجھے علم نہيں كہ آيا اگر منگنى كا عرصہ طويل ہو جائے تو يہ حرام ہے يا نہيں ؟
الحمد للہ.
منگنى كے بعد عقد نكاح مؤخر كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے منگنى كى مدت كتنى بھى طويل ہو جائے، كيونكہ شريعت مطہرہ ميں منگنى اور عقد نكاح كے مابين مدت كى تعيين نہيں كى گئى، بلكہ يہ تو علاقے كے رواج اور عادت كے مطابق ہے، اور طرفيق كى شادى كى تيارى پر منحصر ہے.
بعض اوقات منگنى كے فورا بعد عقد نكاح ہو جاتا ہے اور بعض اوقات منگنى كے ايك ماہ يا سال يا كم و بيش مدت ميں نكاح كيا جاتا ہے.
ليكن بہتر يہى ہے اور ہم نصيحت بھى يہى كرتے ہيں كہ جب وہ نكاح كرنے پر قادر ہو تو پھر منگنى طويل نہيں ہونى چاہيے بلكہ نكاح مكمل كيا جائے؛ كيونكہ استطاعت ہونے كى صورت ميں نكاح كرنے كى ترغيب دلائى گئى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے نوجوانوں تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت و استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كرے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے كيونكہ اس كے ليے روزے ڈھال ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5065 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1400 ).
پھر يہ تجربہ سے بھى ثابت ہے كہ جتنى منگنى طويل ہو گى اس ميں طرفين كے ليے مشكلات ہى پيدا ہوتى ہيں، اور حقيقى ازدواجى زندگى شروع كرنے سے قبل مشكلات كا باعث بنتى ہے، اور اكثر طور اس سے تو تعلقات و رابطہ ہى ختم ہو جاتا ہے، يا پھر طرفين پر اس كے دو رس اثرات مرتب ہوتے ہيں.
ہم يہاں آپ دونوں كو يہى مشورہ ديں گے يعنى منگنى كرنے والے نوجوان اور لڑكى كے اولياء اور گھر والوں كو يہى كہيں گے كہ اگر تين سال سے پہلے شادى ممكن نہيں جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے تو پھر ہم دونوں سے يہى كہيں گے كہ ابھى عقد نكاح كرنے ميں جلدى مت كريں.
كيونكہ طويل مدت تك بغير رخصتى كيے فى الواقع صرف نكاح كا كوئى فائدہ نہيں ہوگا، اگر طرفين كو علم ہے كہ منگيتر لڑكا اور لڑكى آپس ميں سب اجنبيوں كى طرح ہى اجبنى ہيں، جب تك ان كا نكاح نہ ہو جائے وہ اجبنى ہى رہيں گے، اور اسى طرح جب وہ اس كے احكام و آداب اختيار كرنے پر حقيقى طور پر تيار ہيں.
ہم يہ مشورہ اس ليے دے رہے ہيں كہ طويل عرصہ تك صرف عقد نكاح رہنے كى بنا پر تجربہ ہوا ہے كہ اس سے مشكلات ہى پيدا ہوئى ہيں، اور شرعى مشكلات كا شكار ہو جاتے ہيں، بلكہ بعض تو عقد نكاح فسخ بھى كرنا پڑے، بلاشك و شبہ عقد نكاح فسخ كرنے سے طرفين كے ليے منگنى توڑنا زيادہ آسان ہے.
پھر طويل عرصہ تك رخصتى كيے بغير عقد نكاح رہنے كےمنفى اور سلبى اثرات ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس عرصہ كے دوران لڑكا اور لڑكى كا ايك دوسرے سے تعلق بڑھ جاتا ہے اور وہ بغير كسى سبب كے ايك دوسرے كے دل ميں گھر كر ليتے ہيں جس كا نفوس پر اثر پڑتا ہے، جس كى بنا پر اس كے احساسات ا ور جذبات اہم معاملات مثلا تحصيل علم اور اعمال صالحہ ميں ركاوٹ سى بن جاتے ہيں.
اس سلسلہ ميں آپ ذرا درج ذيل قصہ پر غور كريں جو ہمارے پيارے اور محبوب قائد محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے اور اس سے نصيحت حاصل كريں.
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك نبى نے ميدان جھاد ميں جاتے ہوئے اپنى قوم سے كہا:
ميرے ساتھ وہ شخص مت جائے جس نے عورت سے عقد نكاح كيا اور ابھى رخصتى نہيں، اور نہ ہى وہ شخص ميرے ساتھ جائے جس نے گھر تيار كيا ليكن ابھى چھت نہيں ڈالى اور نہ ہى وہ شخص ميرے ساتھ جائے جس نے حاملہ بكرى يا اونٹنى خريدى ہيں اور وہ ان كے بچے پيدا ہونے كا انتظار كر رہا ہے.
وہ نبى جنگ كے ليے نكل كھڑا ہوا اور عصر كى نماز كے وقت ايك بستى ميں پہنچا تو سورج كو مخاطب كر كے كہنے لگا: سورج تو بھى مامور ہے، اور ميں بھى مامور ہوں، اے اللہ اس سورج كو ہمارے ليے روك دے، تو فتح ہونے تك سورج روك ديا گيا، اور مال غنيمت جمع كر كے ميدان ميں ركھا گيا اور آگ آئى ليكن اس نے مال غنيمت كھايا نہيں.
تو نبى كہنے لگا: تم ميں خيانت پائى جاتى ہے، تم ميں سے ہر قبيلے كا ايك شخص ميرى بيعت كرے، تو ايك شخص كا ہاتھ نبى كے ہاتھ سے چپك گيا، تو نبى كہنے لگا: تم ميں خيانت پائى جاتى ہے، لہذا تمہارا سارا قبيلہ ميرى بيعت كرے، تو دو يا تين اشخاص كا ہاتھ نبى كے ہاتھ سے چپك گيا چنانچہ نبى كہنے لگا:
خيانت تم ميں ہے، تو وہ گائے كے سر جتنا سونا لائے اور مال غنيمت ميں ركھ ديا اور آگ آئى تو مال غنيمت كھا كر چلى گئى، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے ہمارے عجز و كمزورى كو ديكھتے ہوئے مال غنيمت حلال كر ديا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3214 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1747 ).
اس قصہ سے شاہد يہ ہے كہ اس نبى نے جھادى مہم سے كئى قسم كے افراد كو دور ركھا جو اس مہم كے قابل نہ تھے ان ميں وہ شخص بھى شامل ہے جس نے عورت سے عقد نكاح كر ليا اور اب وہ اس سے بنا اور رخصتى چاہتا ہے، ليكن ابھى اس كى مراد پورى نہيں ہوئى.
بخارى كے شارح ابن بطال رحمہ اللہ نے مھلب رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے كہ: اس ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ دنياوى فتنے نفس كو خيب و خسران كى طرف بلاتے ہيں؛ كيونكہ جس نے عورت سے عقد نكاح كر ليا ہو اور اس كى رخصتى نہ ہوئى ہو كچھ ہى عرصہ ميں رخصتى اور بنا ہونے والى ہو تو اس كا دل اس كى طرف واپس جانے سے متعلق ہوگا اور وہ يہى سوچتا رہےگا كہ كب واپس جاؤں، اس طرح جس اہم كام كے ليے وہ آيا ہے شيطان اسے اس كام سے مشغول كر كے دوسرى طرف لگا دےگا، اسى طرح دنيا كا مال و متاع اور خوبصورتى بھى.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہاں اس واقع ميں اسے روكنے كى غرض يہ ہے كہ وہ اپنا دل و دماغ جھاد كے ليے فارغ كرے اور پورى چستى كے ساتھ جھاد ميں جائے؛ كيونكہ جس شخص كا عقد نكاح ہوا ہے اس كے خيالات تو پيچھے اپنى بيوى كے متعلق ہى ہونگے، ليكن اگر رخصتى ہو چكى اوردخول كر ليا ہو تو پھر ايسے شخص كے ليے معاملہ زيادہ آسان ہوگا، اس كى مثال نماز سے قبل كھانے ميں مشغول ہونے كى ہے.
ليكن يہ رائے اس صورت ميں جب كسى معتبر يا سخت عذر كى بنا پر آپ دونوں كے ليے جلد نكاح كرنا ناممكن ہو، ہمارى رائے كے مطابق صرف پڑھائى اور تعليم كے حصول كى خاطر شادى ميں تاخير كرنا صحيح نہيں، اور ہم اس تاخير كا آپ كو مشورہ بھى نہيں ديتے.
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" شادى جلد كرنى واجب ہے، اور نوجوان ميں تعليم اور پڑھائى كى خاطر اپنى شادى ميں تاخير نہيں كرنى چاہيے، اور اسى طرح تعليم كى خاطر لڑكى كى شادى ميں بھى تاخير نہيں كرنى چاہيے.
كيونكہ شادى اس تعليم ميں مانع نہيں، بلكہ نوجوان كے ليے شادى كر كے اپنے نفس اور عفت اور دين كو محفوظ كرنے كے ساتھ ساتھ تعليم حاصل كرنا بھى ممكن ہے.
اور اسى طرح اگر لڑكى كو برابر اور كفو كا رشتہ مل جائے تو اس كو شادى جلد كرنى چاہيے اگرچہ وہ تعليم بھى حاصل كر رہى ہو، چاہے ميٹرك ميں ہو يا ايف اے اور بى اے يا ايم اے كر رہى ہو شادى ميں مانع نہيں.
اس ليے جب رشتہ مناسب اور كفو كا ہو تو جلد شادى كرنى چاہيے اس ميں تعليم مانع نہيں.
اگر اس كے ليے كچھ تعليم چھوڑنى بھى پڑے تو كوئى حرج نہيں، اہم يہ ہے وہ اتنى تعليم ضرور حاصل كرے جس سے اسے دين كى سمجھ آ جائے، اور باقى تو فائدہ كے ليے ہے.
اور پھر دور حاضر ميں تو خاص كر شادى ميں بہت سارے فوائد و مصلحتيں ہيں؛ اور تاخير سے شادى كرنا نوجوان لڑكے اور لڑكى دونوں كے ليے نقصاندہ اور ضرر كا باعث ہے.
اس ليے ہر جوان لڑكے اور لڑكے كو جتنى جلد ہو مناسب رشتہ ملنے پر شادى كرنى چاہيں، تا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان پر بھى عمل ہو سكے:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہو تو وہ شادى كرے،كيونكہ يہ آنكھوں كو نيچا كرنے كا باعث اور شرمگاہ كو محفوظ بناتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا تو وہ روزے ركھے كيونكہ يہ اس كے ليے ڈھال ہے " متفق عليہ
يہ حديث لڑكے اور لڑكي سب كو شامل ہے صرف مردوں كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ سب كے ليے عام ہے، اور سب ہى شادى كے ضرورتمند ہيں.
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ سب كو ہدايت نصيب فرمائے.
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ ( 20 / 421 - 422 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سےدرج ذيل سوال كيا گيا:
لوگوں ميں ايك عام عادت پھيل چكى ہے كہ لڑكى يا اس كا والد ميٹرك يا گريجويشن كى تعليم مكمل كرنے كا كہہ كر آنے والا رشتہ ٹھكرا ديتے ہيں، يا پھر يہ كہ وہ چند برس تك پڑھائيگى اور پھر شادى كرينگے ايسا كرنے كا حكم كيا ہے اور ايسا كرنے والوں كو آپ كيا نصيحت كريں گے؛ بعض لڑكياں تو تيس برس يا اس سے بھى زيادہ كى عمر كو پہنچ جاتى ہيں اور ان كى شادىنہيں ہوتى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اس كے حكم ميں ہم يہ كہيں گے كہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو پسند كرتے ہو تو تم اس كى شادى كردو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كرے، كيونكہ يہ نظروں كو نيچا كر ديتى ہے اور شرمگاہ كى حفاظت كرتى ہے "
اور شادى نہ كرنا شادى كى بہت سارى مصلحتوں كو ختم كر كے ركھ ديتا ہے؛ اس ليے ميں عورتوں كے اولياء اور اپنے مسلمان بہنوں اور بھائيوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ پڑھائى كى تكميل يا پھر پڑھانے كى بنا پر شادى ميں ركاوٹ مت ڈاليں، بلكہ شادى كريں اور اس كے ليے ممكن ہے كہ عورت شادى كے بعد تعليم كى تكميل كرنے كى شرط ركھ لے.
اور اسى طرح سال يا دو برس تك پڑھانے كى شرط ركھے كہ جب تك اولاد نہ ہو وہ پڑھائيگى اور پھر چھوڑ دےگى تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
يہ كہ عورت ايسے علوم ميں گريجويشن كرتى پھرے جس كى كوئى ضرورت نہيں يہ غور و خوض كا محتاج ہے.
ميرى رائے تو يہى ہے كہ جب لڑكى پرائمرى كر لے اور وہ كتاب اللہ اور احاديث نبويہ پڑھنے كے اور لكھنے اور تفسير پڑھنے كے قابل ہو جائے اور اسے فائدہ دينے لگے تو يہى كافى ہے؛ الا يہ كہ اگر كوئى ايسا علم ہو جس كى لوگوں كو ضرورت ہو اور اس كے بغير كئى چارہ نہ ہو مثلا ميڈيكل وغيرہ ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے ايسا كرنے ميں كوئى شرعى ممانعت نہ پائى جائے اور مرد و عورت كا اختلاط نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام ( 390 ).
واللہ اعلم