"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
سنت تو يہ ہے كہ قبر زمين سے صرف ايك بالشت اونچى كى جائے اور اسے كوہان كى طرح بنائى جائے نہ كہ ہموار سطح ميں جمہور كا قول يہى ہے.
اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل روايت ہے:
سفيان التمار بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كو كوہان كى شكل ميں بنى ہوئى ديكھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1390 ).
اور جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر لحد بنائى گئى اور اس كے دھانے پر كچى اينٹوں كو كھڑا كيا گيا، اور ان كى قبر زمين سے تقريبا ايك بالشت اونچى كى گئى "
صحيح ابن حبان حديث نمبر ( 6635 ) سنن البيھقى حديث نمبر ( 6527 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.
زاد المستقنع ميں ہے:
" قبر زمين سے ايك بالشت اونچى اور كوہان كى شكل ميں بنائى جائيگى "
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى سنت يہ ہے كہ: قبر زمين سے اونچى كى جائے، اور جس طرح ايسا كرنا سنت ہے اور پھر واقعہ بھى اس كا متقاضى ہے؛ كيونكہ قبر سے نكلى ہوئى مٹى قبر پر ہى ڈالى جائيگى، اور يہ معلوم ہى كہ مٹى كھودنے سے قبل اچھى طرح ساتھ مل كر جمى ہوتى ہے، ليكن كھودى جائے تو پھول جاتى ہے، اس ليے مٹى كا زيادہ ہونا ضرورى ہے.
اور اس ليے بھى ميت والى جگہ مٹى كے ليے اولى ہے، اور اب وہ كھلى ہو گئى ہے، تو وہ مٹى جو ميت والى جگہ تھى وہ اس كے اوپر ہو گى ....
علماء نے اس سے ايك مسئلہ مستثنى كيا ہے: جب انسان دار حرب، يعنى: لڑائى كرنے والے كفار كے علاقے ميں فوت ہو تو اس كى قبر اونچى نہيں كرنى چاہيے، بلكہ اسے زمين كے ساتھ برابر كيا جائے، تا كہ دشمن اس كى قبر كو اكھاڑ نہ ديں، اور ميت نكال كر اس كا مثلہ وغيرہ نہ كريں.
قولہ: " كوہان كى شكل ميں " يعنى كوہان كى طرح بنائى جائے، وہ اس طرح كہ قبر كے درميان والا حصہ اونچا اور دونوں سائڈ نيچى ہوں، اور كوہان كى ضد اور خلاف مسطح ہے كہ بالكل برابر سطح ہو.
اس كى دليل يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے دونوں صحابيوں ابو بكر اور عمر فاروق رضى اللہ عنہما كى قبريں ايسى ہى ہيں " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 364 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ ميں قبريں اونچى كرنا شامل نہيں، اور نہ ہى اسے پكى انيٹوں اور پتھروں وغيرہ سے بنانا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے، اور نہ ہى اسے پكى كرنا اور اس پر ليپ كرنا، اور نہ ہى اس پر قبہ اور گنبد تعمير كرنا؛ يہ سب كچھ مكروہ بدعت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كے مخالف ہے..... ، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كى قبريں نہ تو اونچى اور نہ ہى بالكل نيچى تھيں، اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے دونوں خليفوں كى قبريں بھى؛ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كوہان كى شكل ميں تھى جہاں چمكدار سرخ سنگريزى بچھى ہوئى تھى، نہ تو اس پر كچھ بنا ہوا تھا اور نہ ہى مٹى كا ليپ كيا گيا، اور اسى طرح دونوں خليفوں كى قبريں بھي، اور جو شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كو معلوم كرنا چاہتا تو ايك پتھر كى نشانى سے معلوم كرتا " انتہى.
ماخوذ از: زاد المعاد ( 1 / 524 ).
دوم:
اور مسلم شريف كى درج ذيل روايت جو ابو الھياج الاسدى بيان كرتے ہيں كہ مجھے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:
" كيا ميں تجھے اس كام كے ليے روانہ نہ كروں جس كے ليے مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھيجا تھا ؟
كہ تمہيں جو مجسمہ بھى ملے اسے مٹا ڈالو، اور جو قبر اونچى ہو اسے برابر كر دو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 969 ).
اس حديث ميں برابر سے مراد يہ ہے كہ اسے باقى سب قبروں كے برابر كر دو، اور يہ بيان ہو چكا ہے كہ اس كى اونچائى ايك بالشت كے اندر ہونى چاہيے.
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: قبر زمين سے زيادہ اونچى نہيں كى جائيگى، اور نہ ہى كوہان كى شكل ميں بنائى جائيگى، بلكہ ايك بالشت اونچى اور برابر بنائى جائيگى، امام شافعى اور اس كى موافقت كرنے والوں كا مسلك يہى ہے، اور قاضى عياض نے اكثر علماء سے نقل كيا ہے كہ: ان كے ہاں افضل يہى ہے كہ قبر كوہان جيسى بنائى جائے، جو كہ امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك ہے " انتہى.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " القول المفيد شرح كتاب التوحيد " ميں كہتے ہيں:
" قولہ: " اور نہ ہى كوئى اونچى قبر " يعنى بلند قبر.
قولہ " مگر اسے برابر كر دو " اس كے دو معنى ہيں:
پہلا:
اسے اس كے ارد گرد والى قبروں كے برابر كر دو.
دوسرا:
تو اسے اس طرح صحيح سالم كر دے جو شريعت كا تقاضا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
وہ جس نے پيدا فرمايا اور اسے صحيح سالم بنايا الاعلى ( 2 ).
يعنى: اس كى خلقت كو اچھى اور صحيح سالم شكل ميں بنايا، اور يہ ا حسن ہے، اور يہ دونوں معنے متقارب اور ايك دوسرے كے قريب ہيں.
اور اشراف يعنى بلند اور اونچى ہونے كے دو معنے ہيں:
پہلا: قبر پر ركھى ہوئى بڑى علامت كى بنا پر اونچى ہو، اور يہ لوگوں كے ہاں نصائل يا نصائب ( كھڑے پتھر ) سے معروف ہيں، اور نصائل سے صحيح لغت نصائب كھڑے پتھر كى علامت ہے.
دوسرا:
اس پر كچھ تعمير كي جائے، يہ كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں پر مسجد بنانے اور وہاں چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائى ہے "
تيسرا:
اسے رنگ كے ساتھ اونچا كيا جائے، وہ اس طرح كہ اس پر رنگ برنگى علامتيں ركھى جائيں.
چوتھا:
قبر كى مٹى باقى ارد گرد والى قبروں سے اونچى ہو تا كہ دوسرى قبروں سے ظاہر اور عليحدہ لگے.
تو يہ سب اونچى اور بلند ميں شامل ہوتى ہيں، جو كسى دوسرى پر ظاہر اور اس سے امتيازى حيثيت ركھے اسے باقى سب كے ساتھ برابر كرنا ضرورى ہے، تا كہ يہ چيز قبروں كے ساتھ شرك اور غلو كا باعث نہ بنے " انتہى.
سوم:
مندرجہ بالا سطور سے يہ واضح ہوا كہ قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار تعمير كرنا ممنوع ہے، اور يہ قبروں كى تعظيم اور شرك كا ذريعہ ہيں اور اسى طرح تقريبا ايك بالشت سے قبر اونچى كرنا بھى ممنوع ہے.
شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار بنانا بھى اس حديث ( مندرجہ بالا حديث ) كے تحت بالاولى شامل ہوتے ہيں، اور قبروں كو مساجد بنانا بھى يہى ہے، اور ايسا كرنے والے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے ....
قبروں كو پكا كرنا اور انہيں اچھى اور بناسنوار كر تعمير كرنے سے كتنى ہى خرابياں پيدا ہو چكى ہيں اور سرايت كر چكى ہيں جس سے آج اسلام رو رہا ہے؛ ان خرابيوں ميں جاہل قسم كے افراد كا وہى اعتقاد ہے جو كفار اپنے بتوں سے ركھتے ہيں، اور يہ اتنى عظمت اختيار كر گيا ہے كہ لوگ يہ گمان كرنے لگے ہيں كہ يہ قبر نفع دينے اور نقصان دور كرنے پر قادر ہے، تو اس طرح انہوں نے ان قبروں كو اپنى حاجات و ضروريات پورى كرنے اور نجات و كاميابى اور مطلب پورے ہونے كى جگہ بنا ليا ہے، اور وہاں سے وہ كچھ مانگنے لگے ہيں جو انہيں اپنے رب اور پروردگار سے مانگنا چاہيے، اور ان قبروں كى طرف سفر كر كے جانے لگے ہيں، اور انہيں تبركا چھو كر اس سے مدد مانگتے ہيں؛ اجمالى طور پر يہ كہ انہوں نے كوئى ايسا كام نہيں چھوڑا جو جاہليت ميں بتوں كے ساتھ نہ ہوتا ہو آج يہ بھى اس پر عمل پيرا ہيں، انا للہ و انا اليہ راجعون!!
اس شنيع اور قبيح برائى اور فظيع كفر كے باوجود ہم كوئى ايسا شخص نہيں پاتے جو اللہ كے ليے غصہ ركھے اور دين حنيف كى حميت ميں غيرت كھائے، نہ تو كوئى عالم دين، اور نہ ہى كوئى طالب علم، اور نہ ہى كوئى افسر اور حكمران اور نہ ہى كوئى وزير و مشير اور نہ ہى كوئى بادشاہ ؟!!
ہميں بہت سى ايسى خبريں ملى ہيں جن ميں كوئى شك وشبہ كى گنجائش ہى نہيں كہ بہت سے قبر پرست لوگ يا پھر ان ميں سے اكثر كو جب اپنے مخالف كى جانب سے قسم اٹھانے كا كہا جائے تو وہ جھوٹى قسم اٹھا ليتے ہيں، ليكن جب اس كے بعد انہيں يہ كہا جائے كہ تم اپنے پير اور اعتقاد، يا فلاں ولى كى قسم اٹھاؤ تو وہ ہكلانا شروع كر ديتا ہے، اور ليت و لعل سے كام ليتا اور انكار كرتا ہوا حق كا اعتراف كر ليتا ہے؟!!
يہ ان كے شرك كى سب سے بڑى اور واضح دليل ہے كہ ان كا شرك تو ان لوگوں سے بھى بڑھ چكا ہے جو اللہ تعالى كو دو ميں دوسرا، يا پھر تين ميں تيسرا مانتے ہيں؛ تو اے علماء دين، اور اے مسلمان حكمرانو اسلام كے ليے كفر سے زيادہ بڑى مصيبت اور كيا ہے، اور اس دين اسلام كے ليے غير اللہ كى عبادت سے زيادہ كونسى آزمائش و ابتلاء ہے، اور مسلمانوں كو كونسى ايسى مصيبت پہنچى ہے جو اس مصيبت كے برابر ہو، اور كونسى ايسى برائى ہے جس كا انكار واجب ہو اگر اس واضح اور واجب شرك كا انكار كرنا واجب نہيں ؟:
اگر تم كسى زندہ كو آواز دو تو تم اسے سنا سكتے ہو، ليكن جسے تم پكار ر ہے اس ميں تو زندگى كى رمق ہى نہيں.
اور اگر كسى آگ ميں پھونك مارو تو روشنى بھى ہو، ليكن تم تو راكھ ميں پھونكيں مار رہے ہو" انتہى.
ماخوذ از: نيل الاوطار ( 4 / 83 - 84 ).
اس سے آپ كو يہ معلوم ہو گيا ہوگا كہ آپ نے جو سنگ مرمر اكھاڑے اور منہدم كيے ہيں اور قبر كا اوپر والا حصہ گرايا ہے ايك اچھا عمل تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے موافق بھى ہے جس كا آپ نے حكم بھى ديا تھا، اور اس ميں قبر يا قبر والے كى اہانت و توہين نہيں، بلكہ اس ميں قبر اور قبر والے كى عزت و اكرام ہے كہ وہ سنت كے مطابق ہو.
آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ جو كچھ آپ نے كيا ہے اس پر آپ كو بڑے اور بوڑھے لعنت ملامت كرنے لگے ہيں تو يہ ان كى زيادتى اور آپ پر ظلم ہے آپ اس پر صبر كريں كيونكہ آپ نے ايك اطاعت و فرمانبردارى كا كام كيا ہے، اور پھر جو كوئى بھى لوگوں كو نيكى اور بھلائى كا حكم ديتا ہے يا پھر انہيں برائى سے منع كرتا ہے اس كے ساتھ يہى كچھ ہوتا ہے.
سورۃ لقمان ميں لقمان كى وصيت ميں اللہ تعالى نے ہميں يہ بيان كيا ہے كہ:
اے ميرے بيٹے نماز كى پابندى كرتے رہنا، اور نيكى و بھلائى كا حكم ديتے رہو، اور برائى سے روكتے رہو، اور جو كچھ تجھے پہنچے اس پر صبر كرو، يقينا يہ پرعزم اور تاكيدى امور ميں سے ہے لقمان ( 17 ).
ليكن اس ميں عظيم خرابى پيدا نہ ہونے كا خيال ركھنا ضرورى ہے؛ كيونكہ برائى كو روكنے كى شرط ميں يہ شامل ہے كہ اسے روكنے سے اس سے بھى بڑى برائى اور خرابى پيدا نہ ہوتى ہو.
اسى ليے جب كسى انسان كے گمان ميں يہ غالب ہو كہ اگر اس نے قبر كو منہدم كر كے برابر كر ديا تو اس سے اس كے علاقے يا اس كى قوم ميں فتنہ و فساد بپا ہو جائيگا، يا پھر اسے اس كى بنا پر جيل جانا پڑيگا يا پھر اسے زدكوب كيا جائيگا، تو پھر اس حالت ميں اسے خاموشى اختيار كر لينى چاہيے، اور جب خرابى بڑھ جائے يا پھر اس كے بھائى يا كسى قريبى عزيز كو گزند پہنچنے كا خدشہ ہو تو پھر برائى ہاتھ سے روكنا حرام بھى ہو سكتا ہے.
واللہ اعلم .