"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
بنك البلاد ميں سرمايہ كارى اور شراكت كا حكم سوال نمبر ( 46588 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.
دوم:
سوال ميں مذكورہ اقسام ميں سرمايہ كارى كے متعلق بنك كى ويب سائٹ كا مطالعہ كرنے كے بعد درج ذيل باتيں سامنے آئى ہيں:
1 - المرابحہ: يہ ہے كہ: بنك ميں ركھى گئى رقم كو مختلف قسم كى نفع مند اشياء كى خريدارى ميں لگا كر سرمايہ كارى كى جاتى ہے ـ سونے اور چاندى كے علاوہ ـ پھر نفع حاصل كرنے كے ليے خريدے ہوئے ريٹ سے زيادہ ريٹ پر شريعت اسلاميہ كے احكام كے مطابق فروخت كيے جاتے ہيں.
2 - اصايل: يہ ہے كہ سعودى كمپنيوں كے صاف اور شفاف حصص ميں شريعت اسلاميہ كے احكام كے مطابق سرمايہ كارى كى جاتى ہے.
3 - السيف: يہ ہے كہ رقم كو شريعت اسلاميہ كے احكام كے مطابق صاف اور شفاف كويتى حصص كى سرمايہ كارى ميں " گلوبل " اسلامى كے ذريعہ لگايا جاتا ہے.
بنك كى نگرانى كميٹى كے ايك ركن ڈاكٹر يوسف الشبيلى كہتے ہيں كہ:
اصايل اور سيف كى قسم يہ دونوں حصص كے متعلق ہيں جن مال كى سرمايہ كارى ان كمپنيوں ميں نہيں كى جاتى جو سود پر قرض ديتى ہيں، يا پھر سود پر رقم ركھتى ہيں، اور مرابحہ والى قسم انٹرنيشنل سامان كى مباح اور جائز طريقہ سے ادھار كى تجارت كرتى ہے . انتہى.
ماخوذ از: ڈاكٹر الشبيلى كى ويب سائٹ.
اور اگر معاملہ ايسا ہى ہو جيسا بيان كيا گيا ہے تو پھر ان اقسام ميں سرمايہ كارى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .