"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرے اور بيوى كے مابين طلاق ہو گئى ہے اور ميرے چار بچے ہيں ايك بيٹا آٹھ برس كا اور ايك بيٹى ساڑھے چار برس اور ايك تين برس كى اور ايك دودھ پيتا بچہ جس كى عمر نو ماہ ہے، ان كے خرچ كى مقدار كيا ہے، علم ميں رہے كہ ماں پيسے والى ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
علماء كا اتفاق ہے كہ بچوں كا خرچ والد كے ذمہ ہے، چاہے وہ اپنى بيوى كو اپنے پاس ركھے يا اسے طلاق دے دے، اور چاہے بيوى فقير ہو يا مالدار ماں پر واجب نہيں كہ باپ كى موجودگى ميں اولاد پر خرچ كرتى پھرے.
اور جس عورت كو طلاق رجعى ہو عدت كى مدت ميں اس كا خرچ اور رہائش اس كے خاوند كے ذمہ واجب ہے، اور جب عدت ختم ہو جائے اور بيوى حاملہ نہ ہو تو خاوند پر واجب نہيں.
اور جب مطلقہ عورت بچوں كى پرورش كرتى ہو تو ان بچوں كا نان و نفقہ ان كے والد پر ہو گا، اور بچے كى پرورش كرنے والى كو حق حاصل ہے كہ وہ بچے كو دودھ پلانے كى اجرت طلب كر سكتى ہے.
اور اولاد كا خرچ ان كى رہائش اور كھانا پينا، اور لباس اور تعليم اور ہر وہ چيز جس كى انہيں ضرورت ہو ان اشياء كو شامل ہو گا، اور اس كى مقدار كا اندازہ بہتر طريقہ سے لگايا جائيگا، اور اس ميں خاوند كى حالت كا خيال ركھا جائيگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كشادگى والے كو اپنى كشادگى سے خرچ كرنا چاہيے اور جس پر اس كے رزق كى تنگى كى گئى ہو اسے چاہيے كہ جو كچھ اللہ نے اسے دے ركھا ہے اسى ميں سے ( اپنى حسب حيثيت ) دے، كسى شخص كو اللہ تعالى تكليف نہيں ديتا مگر اتنى ہى جتنى طاقت اسے دے ركھى ہے، اللہ تنگى كے بعد آسانى و فراغت بھى كر دے گا الطلاق ( 7 ).
يہ چيز ايك علاقے اور شہر و ملك كے اعتبار سے مختلف ہو گى، اور اشخاص كے اعبتار سے بھى مختلف.
لہذا اگر خاوند غنى و مالدار ہو تو اس كى مالدارى كے مطابق، يا پھر وہ فقير ہو يا متوسط طبقہ سے تعلق ركھتا ہو تو بھى اس كى حالت كے مطابق ہو گا، اور اگر ماں اور باپ كسى معين مقدار پر متفق ہو جائيں چاہے قليل ہو يا كثير تو بھى معاملہ ان پر ہے، ليكن تنازع و اختلاف كے وقت فيصلہ قاضى كريگا.
دوم:
طلاق شدہ عورت كے ليے جائز ہے كہ وہ بچے كو دودھ پلانے كى اجرت كا مطالبہ كرے، اس ميں علماء كا اتفاق ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بچے كى رضاعت كا خرچ باپ اور دادا كے ذمہ ہے، اور انہيں حق حاصل نہيں كہ وہ طلاق شدہ والدہ كو دودھ پلانے پر مجبور كريں، ہميں اس ميں اختلاف كا كوئى علم نہيں "انتہى
ديكھيں: المغنى ( 11 / 430 ).
اور وہ يہ بھى كہتے ہيں:
" اگر ماں اسے اجرت پر دودھ پلانے كا مطالبہ كرتى ہے تو وہ اس كى زيادہ حقدار ہے، چاہے والد كو كوئى مفت دودھ پلانے والى مل جائے يا نہ ملے "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 11 / 431 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رضاعت كى اجرت حاصل كرنا ماں كا حق ہے اس ميں علماء كا اتفاق ہے، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ تمہارے بچے كو دودھ پلائيں تو انہيں اس كى اجرت دے دو . انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 347 ).
واللہ اعلم.