"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی، تو کیا اللہ تعالی نے فرشتے، جن یا کوئی اور کائنات بھی اپنے ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟ اور کیا اس میں اللہ تعالی نے اپنی طرف سے روح بھی پھونکی ہے؟ یا یہ آدم علیہ السلام کی خصوصیت تھی؟ دیگر مخلوقات کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا اور اس کے متعلق خود ہی خبر دی، تاہم آپ علیہ السلام کے علاوہ کسی بھی ذی روح چیز کو اللہ تعالی نے اپنے ہاتھوں سے پیدا نہیں کیا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
( قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ )
ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا اے ابلیس ! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ، کیا تو گھمنڈ میں آگیا ہے ؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔ [ ص:75]
اور اسی طرح حدیث شفاعت میں ہے کہ:
(میں قیامت کے دن سب کا سردار ہوں کیا تم کو معلوم ہے کہ روز قیامت تمام اولین و آخرین کو اللہ تعالی ایک ہی میدان میں جمع کرے گا، وہ میدان [ایسا ہموار اور وسیع ہوگا ] کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب سن سکیں گے اور دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے گا سورج بہت قریب آ جائے گا، لوگوں کو اتنی تکلیف ہوگی کہ برداشت نہ کر سکیں گے، وہ کہیں گے دیکھو ! کتنی بری تکلیف ہو رہی ہے! بارگاہ الہی میں کسی سفارش کرنے والے کو تلاش کرو! تو بعض کی رائے ہوگی کہ اپنے والد آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہذا سب ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ ابوالبشر ہیں اللہ تعالی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی ہے اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا ہے،اور آپ کو جنت میں جگہ دی ہے آپ ہماری سفارش فرمائیے دیکھئے ہم کتنی تکلیف میں مبتلا ہیں ، اس پر آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج میرا رب بہت غصہ میں ہے اس نے مجھے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا تھا تو میں اس سے شرمندہ ہوں اور وہ نفسی نفسی کہیں گے اور فرمائیں گے کہ تم سب نوح کے پاس جاؤ۔۔۔) الحدیث، اسے بخاری: (3340) اور مسلم: (194) نے روایت کیا ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو حقیقی معنوں میں ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے علاوہ کسی ذی روح کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا نہیں کیا؛ اللہ تعالی نے اس طرح آدم علیہ السلام کو خصوصیت ، فضیلت، اور شرف عطا کیا" ختم شد
"نقض الدرامي على المريسي" ص 64
اسی طرح امام دارمی سمیت لالکائی، اور آجری وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ: "اللہ تعالی نے چار چیزوں کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا: عرش، قلم، جنت عدن، اور آدم، اس کے بعد ساری مخلوقات کو "كُنْ" کہا تو وہ وجود میں آ گئیں"
امام دارمی نے ہی حسن سند کے ساتھ تابعی میسرہ بن ابو صالح جو کہ کندہ کے موالی تھے ان سے روایت کیا ہے کہ: "اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے تین چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چھوا، آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا، اور جنت عدن کو اپنے ہاتھ سے بویا" ختم شد
"نقض الدرامي على المريسي" ص 99
امام دارمی کی اس کتاب کے محقق شیخ منصور سماری اپنی تحقیق کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ:
"یہ بات تابعین میں سے میسرہ کے علاوہ حکیم بن جابر، محمد بن کعب قرظی وغیرہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ منقول ہے ، میں نے ان آثار کو کتاب میں متعلقہ جگہ پر ذکر کر دیا ہے" ختم شد
تو یہ چار چیزیں اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے پیدا کی ہیں: عرش، قلم، جنت عدن اور آدم ، جبکہ دیگر تمام مخلوقات کو اللہ تعالی نے کلمہ "کن " کہا تو وہ وجود میں آ گئیں۔
دوم:
روح کے متعلق یہ ہے کہ آدم علیہ السلام اور آپ کی ساری اولاد میں اللہ تعالی نے روح پھونکی ہے اور یہ روح مخلوق ہے، اس کی نسبت اللہ کی طرف تکریمی نوعیت کی ہے۔
روح پھونکنے کے متعلق اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
( فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ )
ترجمہ: تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا ۔ [الحجر:29]
اور اسی طرح عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
( إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ)
ترجمہ: اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللہ پر مت کہو مگر حق۔ نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ [النساء:171]
اس مسئلے کی مزید تفصیلات کیلیے آپ سوال نمبر: (50774 ) کا جواب لازمی مطالعہ فرمائیں۔
واللہ اعلم.