اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اپنى مطلقہ عورت كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہنا

21-11-2011

سوال 89979

كيا آدمى كے ليے اپنى مطلقہ عورت كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہنا ممكن ہے تا كہ اولاد كى حفاظت اور ديكھ بھال ہو سكے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب آدمى اپنى بيوى كو طلاق دے دے چاہے وہ تيسرى طلاق ہو يا پہلى يا دوسرى اور اس كى عدت گزر جائے تو وہ عورت اس شخص كے ليے اجنبى بن جاتى ہے، اس كے ساتھ خلوت كرنا اور اسے چھونا اور اسے ديكھنا حلال نہيں ہوگا.

ايك ہى گھر ميں رہتے ہوئے بلاشك و شبہ ان شرعى امور كا التزام كرنا بہت مشكل ہے، كہ خلوت نہ ہو اور وہ پردے كا التزام كرے جس طرح باقى سب غير محرم عورتيں كرتى ہيں ليكن اگر گھر اتنا كھلا اور وسيع ہو اور عورت كے ليے ايك حصہ خاص كرنا ممكن ہو كہ اس كا راستہ بھى عليحدہ ہو اور وہاں مرد كا كوئى دخل نہ ہو تو پھر ہو سكتا ہے، ليكن اگر وہ ايك ہى گھر ميں ہوں اور اس ميں داخل اور خارج ہونے كا راستہ بھى ايك ہى ہو تو اس حالت ميں مندرجہ بالا امور كا التزام كرنا بہت مشكل ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تين طلاق شدہ عورت آدمى كے ليے بالكل اجنبى ہے جس طرح باقى سب عورتيں اجنبى ہيں، اس ليے كسى بھى اجنبى عورت كى طرح نہ تو آدمى اس سے خلوت كر سكتا ہے اور نہ ہى اس كو ديكھ سكتا ہے جو كسى بھى اجنبى عورت سے ديكھنا جائز نہيں " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 349 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرم سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ميرے والد صاحب بيمار ہو كر ہاسپٹل داخل ہوگئے اور جب ہاسپٹل سے فارغ ہوئے تو انہيں ايك اور بيمارى نے آ ليا جس سے پنڈلى ضائع ہوگئى، اللہ كى قضاء و قدر پر الحمد للہ پھر وہ فالج كا شكار ہوگئے اور بيٹھنے سے عاجز ہوگئے، اب ميں ميرے پاس گھر ميں ہيں....

اور ميرى والدہ كو طلب كيا جو كہ ابھى ان كے نكاح ميں ہى تھى اور اسے كہنے لگے: تجھے طلاق، اور اس سے معافى مانگى اور كہنے لگے ميں نے بھى تجھے معاف كيا، والدہ اب تك اسى گھر ميں ہے اور والد كى ديكھ بھال كرتى ہے؛ كيونكہ وہ بيت الخلاء جانے سے قاصر ہيں، اور كھانا بھى والدہ ہى كھلاتى ہيں كيونكہ ہم ملازمت كرتے ہيں، اس كے بارہ ميں كيا حكم ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو يہ طلاق تيسرى ہے تو آپ كى والدہ كے ليے اس كے ساتھ رہنا اور اس سے پردہ نہ كرنا اور اس كے ساتھ رہنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ اس كے ليے اجنبى ہے، ليكن اگر يہ مذكورہ طلاق پہلى يا دوسرى طلاق ہو تو يہ رجعى طلاق كہلاتى ہے اور عدت كے اندر اندر خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے اور اسے وہى كچھ حاصل ہوگا جو بيويوں كو ہوتا ہے لہذا وہ آپ كے والد كى خدمت كر سكتى ہے، اور اس كے ساتھ رہى سكتى ہے.

اور جب عدت ختم ہو جائے اور خاوند اسے الفاظ كے ساتھ يا پھر وطئ و جماع كر كے رجوع نہ كرے تو وہ اس كے ليے اجنبى بن جائيگى، اور عدت كے بعد اس كے ليے اس كے ساتھ خلوت كرنا اور رہنا جائز نہيں، الا يہ كہ نيا نكاح ہو سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 226 ).

واللہ اعلم .

طلاق
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔