"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جب كوئى شخص كسى عورت سے شادى كرے اور اس عورت كے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں، اور رخصتى كے وقت اس شخص كو ان بچوں كا علم ہو، اور اس نے انہيں كہيں دوسرى جگہ ركھنے كى شرط نہ لگائى ہو تو بعد ميں وہ انہيں اپنى والدہ كے ساتھ اپنے گھر ميں رہنے سے روكنے كا حق نہيں ركھتا، اہل علم كا فيصلہ يہى ہے؛ كيونكہ عقد نكاح كے وقت اس كى خاموشى اس كى رضامندى ہى شمار ہوگى كہ وہ انہيں اپنے ساتھ ركھنے پر راضى ہے.
اور اسى طرح اگر ان چھوٹے بچوں كى پرورش كرنے والا كوئى نہ ہو جس كے پاس وہ جائيں تو خاوند كو انہيں اپنے ساتھ ركھنے پر مجبور كيا جائيگا.
خرشى رحمہ اللہ مختصر خليل كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" معنى يہ ہے كہ اگر خاوند اور بيوى ميں سے كسى كا چھوٹا بچہ ہو، اور دوسرى اسے گھر سے نكالنا چاہتا ہو تو وہ ايسا ايك شرط پر كر سكتا ہے كہ اس كى پرورش كرنے والا مہيا كرے، اور اس كى اخراجات برداشت كرے.
ليكن اگر بچے كى پرورش اور ديكھ بھال كرنے والا كوئى نہ ہو تو پھر اسے اپنے پاس ركھنے پر مجبور كيا جائيگا ( ليكن اگر وہ بنا كرے اور وہ بچہ اس كے ساتھ ہو ) يعنى خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك جب اپنے ساتھ كے ساتھ زندگى كى ابتدا كرے اور اس كے ساتھ بچہ ہو اور دوسرے كو اس كا علم بھى ہو، ليكن بعد ميں وہ اسے اپنے پاس سے اسے نكالنا چاہے تو اسے ايسا كرنے كا حق نہيں ہے.
اور اگر رخصتى كے وقت اسے علم نہيں ہے تو پھر اسے منع كرنے كا حق حاصل ہے، يہ تو اس صورت ميں ہے جب بچے كى پرورش كرنے والا كوئى نہيں، اور اگر بچے كى پرورش كرنے والا كوئى نہيں تو پھر وہ بچے كو اپنے گھر ميں ركھنے سے نہيں روك سكتا، چاہے رخصتى كے وقت علم ہو يا علم نہ ہو " انتہى
ديكھيں: شرح الخرشى على مختصر خليل ( 4 / 189 ).
اور اگر خاوند آپ كى اولاد سے برا سلوك كرتا ہے كہ بچوں كو اس گھر ميں رہنے ضرر و نقصان ہو تو پھر بچوں كے ليے عليحدہ فليٹ كرايہ پر لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں بھى كوئى حرج نہيں كہ آپ ان كے پاس جا كر ان كى ضروريات پورى كريں اور ان كى ديكھ بھال كريں، چاہے اس كے ليے آپ كو وہاں آدھا ہفتہ رہيں جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے.
جب انہيں اتنے دن آپ كے وہاں رہنے كى ضرورت ہو تو آپ كا خاوند آپ كو ايسا كرنے سے منع نہيں كر سكتا، كيونكہ تربيت اور ديكھ بھال ميں اولاد كا يقينى حق ہے، يہاں ابتدائى طور پر كوتاہى تو خاوند كى جانب سے ہوئى ہے، اب اسے اختيار ہے چاہے تو وہ اس حالت كو قبول كرلے يا پھر كسى دوسرى عورت سے شادى كر كے آپ كو فارغ كر دے.
رہى ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ حديث كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب عورت اس حالت ميں رات بسر كرے كہ اس كا خاوند اس پر ناراض ہو تو صبح ہونے تك فرشتے اس پر لعنت كرتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5193 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 ).
عورت اس وعيد كى مستحق اس وقت ہوتى ہے اور اس پر لعنت اس وقت ہوتى ہے كہ اگر وہ بغير كسى شرعى عذر كے خاوند سے ہم بسترى كرنے سے انكار كرتى ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" يہ بغير كسى عذر كے بيوى كا اپنے خاوند سے ہم بسترى كرنے سے انكار كرنے كى حرمت كى دليل ہے " انتہى
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں اور سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم.