"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا ميرے ليے اپنى طلاق يافتہ خالہ كو فطرانہ دينا جائز ہے، اس كے بيٹے كوئى نہيں، بلكہ بيٹياں شادى شدہ ہيں، اور اس كى ملكيت ميں نصف ايكڑ زمين بھى ہے، اور روزى كا كوئى ذريعہ نہيں، تو كيا ميں زكاۃ انہيں دوں يا كسى اور فقير كو تلاش كروں ؟
الحمد للہ.
اول:
فطرانہ كے مصارف ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، جمہور اہل علم كہتے ہيں كہ: زكاۃ كے آٹھ مصارف ميں سے كسى ايك كو بھى فطرانہ ديا جا سكتا ہے، اور بعض علماء كہتے ہيں كہ فطرانہ زكاۃ كے آٹھ مصارف ميں تقسيم كر كے ادا كرنا واجب ہے، اور كچھ علماء كا كہنا ہے كہ: فطرانہ صرف فقراء اور مساكين كے ساتھ ہى خاص ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" فطرانہ كے مستحقين كے متعلق فقھاء كرام كى تين آراء پائى جاتى ہيں:
جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ: زكاۃ كے آٹھ مصارف ميں سے كسى ايك كو فطرانہ دينا جائز ہے.
اور مالكيہ ـ اور امام احمد سے بھى ايك روايت ميں جسے ابن تيميہ نے اختيار كيا ہے ـ كہتے ہيں كہ فطرانہ صرف فقراء اور مساكين ميں ہى تقسيم كيا جائيگا.
اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ زكاۃ كے آٹھ مصارف پر فطرانہ تقسيم كيا جائيگا، يا ان ميں سے جو بھى پايا جائے " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 23 / 344 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے پہلا اور تيسرا قول رد كرتے ہوئے كہا ہے كہ: فطرانہ كا تعلق بدن كے ساتھ ہے، نہ كہ مال كے ساتھ، شيخ الاسلام مجموع الفتاوى ميں كہتے ہيں:
" اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے غلہ اور كھانا فرض كيا ہے، جيس طرح كفارے ميں غلہ واجب كيا ہے، اور اس قول كى بنا پر فطرانہ بھى صرف اسے ہى ديا جائيگا جسے كفارہ كا غلہ ديا جا سكتا ہے، اور وہ اپنى ضرورت و حاجت كى بنا پر لينے والے ہيں، چنانچہ فطرانہ نہ تو تاليف قلب كے ليے، اور نہ ہى غلام آزاد كرنے كے ليے، اور نہ ہى كسى اور كے ليے دينا جائز ہو گا، اور يہ سب سے قوى الدليل ہے.
اور ضعيف ترين قول اس شخص كا ہے جو يہ كہتا ہے كہ: ہر مسلمان پر فرض ہے كہ وہ فطرانہ بارہ، يا اٹھارہ، يا چوبيس، يا بتيس، يا اٹھائيس وغيرہ كو ادا كرے؛ كيونكہ يہ چيز عہد نبى صلى اللہ عليہ و سلم كے دور ميں مسلمانوں كے طريقہ كے خلاف ہے، اور پھر خلفاء راشدين، اور سحابہ كرام كے كسى بھى دور كسى مسلمان شخص نے اس پر عمل نہيں كيا، بلكہ اس دور ميں تو مسلمان اپنا اور اپنے اہل و عيال كا فطرانہ ايك ہى مسلمان شخص كو ديتا تھا.
اور اگر وہ ديكھتے كہ ايك صاع دس سے بھى زيادہ افراد ميں تقسيم كيا جا رہا ہے، اور ہر ايك شخص كو ايك چلو بھر ديا جا رہا ہے تو وہ اس كو سختى كے ساتھ منع كرديتے، اور اسے بدعت منكرہ، اور قبيح افعال ميں شمار كرتے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو كھجو، يا جو كا ايك صاع، اور گندم كا ايك يا نصف صاع فرض كيا ہے، جتنا ايك مسكين كو كافى ہو، اور عيد كے روزں مسكينوں كے ليے كھانے كا انتظام كيا تا كہ وہ اسے حاصل كر كے مستغنى ہو جائيں.
اور اگر مسكين ايك مٹھى بھر غلہ لے تو اسے ا سكا كوئى فائدہ نہيں ہوگا، اور نہ كسى موقع پر، اور اسى طرح اگر كسى مسافر پر قرضہ ہو تو ايك مٹھى بھر غلہ ملے تو وہ اس سے كيا فائدہ حاصل كرسكتا ہے..... شريعت ان برے افعال سے پاك ہے جسے كوئى دانشور اور عقلمند پسند نہيں كرتا، اور نہ ہى امت كے سلف اور آئمہ ميں سے كسى نے اس پر عمل كيا ہے.
پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" مسكينوں كے ليے كھانا ہے "
يہ اس كى نص ہے كہ يہ مسكينوں كا ہى حق ہے، جس طرح ظہار كى آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تو وہ ساتھ مسكينوں كو كھانا كھلائے .
تو جب يہ كفارہ زكاۃ كے آٹھ مصارف ميں تقسيم نہيں كيا جا سكتا ت واسى طرح فطرانہ بھى ان ميں تقسيم نہيں كيا جا سكتا " انتہى مختصرا.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 25 / 73 - 78 ).
اس بنا پر ان تين اقوال ميں سے راجح دوسرا قول ہے، وہ يہ كہ: فطرانہ فقراء و مساكين كو دينا واجب ہے، كسى اور كو نہيں ديا جا سكتا، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے، جيسا كہ ا نكى كتاب " الشرح الممتع " ( 6 / 117 ) ميں درج ہے.
دوم:
اور مال كى زكاۃ اور فطرانہ مستحق قريبى رشتہ داروں كو دي جائے تو يہ دوسروں كو دينے سے افضل و بہتر ہے، اور زيادہ اجروثواب كا مستحق ہے، تو اس طرح يہ زكاۃ اور صلہ رحمى دونوں چيزيں شمار ہونگى، ليكن يہاں ايك شرط ہے كہ وہ قريبى رشتہ دار ان افراد ميں شامل نہ ہوتا ہو جن كا نفقہ اور خرچ زكاۃ دينے والے كے ذمہ واجب ہو.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
قريبى فقراء و مساكين رشتہ داروں كو فطرانہ دينے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
آپ كے ليے فطرانہ اور مال كى زكاۃ اپنے قريبى فقراء رشتہ داروں كو دينا جائز ہے، بلكہ كسى اور شخص كى بجائے قريبى رشتہ دار كو فطرانہ اور زكاۃ دينى زيادہ بہتر اور اولى ہے؛ كيونكہ رشتہ داروں كو دينا صلہ رحمى اور صدقہ دونوں شمار ہونگى، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اسے اپنا مال بچانے كے ليے نہ دے، وہ اس طرح كہ اگر وہ فقر رشتہ دار ان ميں شامل ہوتا ہو جن كا خرچ اور نفقہ زكاۃ دينے والے پر واجب ہو، يعنى: اس غنى اور مالدار شخص پر.
كيونكہ اس حالت ميں يہ جائز نہيں كہ وہ اس كى ضرورت اپنى زكاۃ سے پورى كرے، ليكن اگر ا سكا خرچ و نفقہ اس كے ذمہ واجب نہيں تو وہ اسے اپنى زكاۃ دے سكتا ہے، بلكہ قريبى رشتہ دار كو زكاۃ دينا كسى اور شخص كو دينے سے افضل اور بہتر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
آپ كا اپنے قريبى كو زكاۃ اور صدقہ دينا صلہ رحمى اور صدقہ دونوں ہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 301 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
اگر تو آپ كى خالہ فقير اور محتاج ہے، اور زكاۃ كى مستحق ہے، تو اسے ديا جا سكتا ہے، چاہے وہ نصف ايكڑ زمين كى مالك ہى كيوں نہ ہو، اگرچہ اس كے ليے افضل تو يہ ہے كہ وہ زمين فروخت كر كے لوگوں كے احسان كے بوجھ سے مستغنى ہو سكتى ہے.
مسلمانوں كو يہ نہيں چاہيے كہ ا سكا كوئى قريبى رشتہ دار غريب و محتاج ہو، اور رمضان المبارك ختم ہونے كے قريب ہو تو وہ رمضان كے آخر ميں اسے ايك صاع غلہ دينے كى فرصت تلاش كرتا پھرے، بلكہ مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ عمومى طور پر ہر وقت محتاج اور فقير لوگوں كا خيال ركھے، اور ا نكى ضروريات مال و كھانا، اور لباس وغيرہ فراہم كرنے ميں جلدى كرے، اور مالداروں پر تو حتما فرض ہوتا ہے كہ وہ اپنے غريب و محتاج رشتہ داروں كا خيال كريں.
واللہ اعلم .