"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں ايك اشياء فروخت كرنے والي كمپني ميں ملازمت كرتا ہوں، مجھے سيلز مينجر نے كہا ہے كہ وہ يہ مال 1000ايك ہزار ريال ميں فروخت كرسكتا ہے، ليكن ميرے پاس ايسےگاہك ہيں جو يہي مال 1500پندرہ سوريال ميں خريد ليں گے، تو كيا ميں اسےفروخت كركےكمپني كو 1000ايك ہزار ريال دوں اور باقي خود ركھ لوں ؟
الحمد للہ.
اگر كمپني نےآپ كےليے قيمت مقرر كردي ہےكہ اس سے زيادہ ميں آپ فروخت نہ كريں تو پھرآپ كےليے مقررہ قيمت سےزيادہ ميں مال فروخت كرنا جائز نہيں.
ليكن اگركمپني نےآپ كےليے قيمت تو مقرر كي ہے ليكن زيادہ قيمت ميں فروخت كرنےسےمنع نہيں كيا، تو اس صورت ميں آپ زيادہ قيمت ميں فروخت كرسكتےہيں.
اوران دونوں صورتوں ميں زيادہ رقم كمپني كي ہوگي آپ كےليے اسےلينا حلال نہيں ہے.
اس ليے كہ وكيل اس ليے بنايا جاتا ہے كہ وہ اپنےموكل كي مصلحت ميں كام كرے نہ كہ اپني مصلحت كےليے.
اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے جسے امام بخاري رحمہ اللہ تعالي نے اپني صحيح بخاري ميں نقل كيا ہے:
عروہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے انہيں ايك دينار ديا كہ اس سےان كےليے بكري خريديں، تو انہيں نے اس سے دوبكرياں خريديں اوران ميں سےايك بكري ايك دينار كي فروخت كردي، اور بكري اور ايك دينار لا كرانہيں دےديا تو نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےان كي تجارت ميں بركت كي دعا دي، اور اگر وہ مٹي بھي خريد ليتےتواس ميں بھي انہيں نفع ہوتا. صحيح بخاري حديث نمبر ( 3643 ).
لھذا عروہ رضي اللہ تعالي عنہ خريداري ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےوكيل تھےتوانہوں نےخريدوفروخت ميں نفع حاصل كيا اور يہ نفع نبي صلي اللہ عليہ وسلم كا تھا، اس ليےكہ اگر وہ عروہ رضي اللہ تعالي عنہ كا حق ہوتا تو نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نہ ليتے.
ابن عبدالبررحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
علماء كرام كےہاں وكالت كےجواز ميں كوئي اختلاف نہيں، علماء كرام نےاس حديث كےمعني ميں اختلاف كيا ہےكہ وكيل كو جس كاوكيل بنايا گيا تھا اگروہ اس سےزيادہ خريدتا ہے تو كيا وہ موكل پر ركھنا لازم ہے كہ نہيں؟
مثلا: ايك شخص نے يہ كہا كہ ميرے ليے اس درھم كا اس جيسا گوشت خريدو تواس نے ايك درھم كا اس جيسا ہي چار كلوگوشت خريدليا، توامام مالك اور ان كےاصحاب كا مسلك يہ ہےكہ اگر گوشت انہيں صفات كا حامل ہے تواسےسارا ركھنا ہوگا، كيونكہ وہ محسن ہے، اور يہ حديث ان كےقول كي تائيد كرتي ہے، اور يہ حديث جيد ہے، اور اس ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي دونوں بكريوں پر ملكيت كا ثبوت ملتا ہے، اگرايسا نہ ہو تونبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم اس سے دينار نہ ليتے اور نہ ہي ان كي بيع صحيح قرار ديتے. اھ ديكھيں: التمھيد ( 2 / 108)
مستقل فتوي كيمٹي سے اس مسئلہ كےمتعلق سوال كيا گيا تو اس كا جواب تھا:
سامان اس كي قيمت سے زيادہ فروخت كرنا جائز ہےجبكہ اس ميں كاميابي ہو، ليكن يہ زيادہ قيمت سامان والے كي ہوگي، ليكن اگر مالك نے يہ شرط ركھي ہو كہ اس سےزيادہ قيمت ميں فروخت نہيں كرني توپھر اسي قيمت پر فروخت كرنا ہوگي جوصرف مالك نےمقرر كي ہے. اھ
فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 96 ) .
ليكن ... جب كمپني نےآپ كےليے قيمت مقرر كردي ہے، اور آپ كے ساتھ اس پر متفق ہوں كہ اگر قيمت سے زيادہ فروخت كريں توقيمت سے زيادہ رقم آپ كي تواس صورت ميں قيمت سےزيادہ فروخت كرنا جائزہے اور زيادہ رقم آپ ركھ سكتےہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
جب ( مالك ) آپ كو كہےكہ يہ كپڑا دس ميں فروخت كرو اور اس سے زيادہ آپ كا توصحيح ہےاور زيادہ كا مستحق ہے... ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما اس ميں كوئي حرج نہيں ديكھتےتھے. اھ
ديكھيں: المغني لابن قدامہ ( 7 / 361 ) .
واللہ اعلم .