"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
قرعہ اندازی والی کمیٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا کیا حکم ہے، اس میں ہوتا یوں ہے کہ چند افراد مل کر ماہانہ معین کردہ رقم جمع کرتے ہیں اور پھر ہر ماہ کے آخر میں کمیٹی میں شامل افراد کے ناموں کی قرعہ اندازی کی جاتی ہے، تو جس کا قرعہ نکل آئے وہ سب کی طرف سے جمع کی ہوئی رقم لے لیتا ہے اور اس طرح ہر ماہ ایک شخص کو جمع شدہ رقم دے دی جاتی ہے اور سب کے سب باری باری اپنی رقم لے لیتے ہیں، تو کمیٹی کے ذریعے ملی ہوئی رقم پر زکاۃ ہے؟
الحمد للہ.
اول:
اس طریقہ کار کو عرف میں کمیٹی کہتے ہیں اس کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم اکثر اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایسے اساتذہ کے بارے میں پوچھا گیا جو ہر ماہ کے آخر میں اپنی تنخواہ سے معین رقم جمع کرتے ہیں اور آپس میں کسی ایک استاد کو تھما دیتے ہیں، آئندہ مہینے دوسرے ساتھی کو رقم دی جاتی ہے، اس طرح سب افراد اپنا اپنا حصہ لے لیتے ہیں [اسے کچھ لوگ بیسی بھی کہتے ہیں ]تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ قرض تو ہے لیکن اس میں کسی زائد نفع کی کسی پر کوئی شرط نہیں ہے، اس بارے میں سپریم علما کونسل نے بحث و تمحیص بھی کی ہے اور اکثریت نے اس کے جائز ہونے کا فیصلہ دیا؛ کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہو جاتا ہے اور کسی کو اس میں نقصان نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے" ختم شد
"فتاوى إسلامية" (2/413)
دوم:
اس کمیٹی کی زکاۃ کا معاملہ درج ذیل امور کی معرفت سے منسلک ہے:
اس بنا پر : کمیٹی سے حاصل ہونے والی رقم پر زکاۃ کے متعلق درج ذیل امور ہیں:
مثال کے طور پر: ایک آدمی کے پاس رمضان میں اتنا مال جمع ہو گیا کہ نصاب تک پہنچ گیا اور پھر اگلے ماہ شوال میں کمیٹی نکل آئی تو آئندہ سال ماہ رمضان میں یا تو مکمل رقم کی زکاۃ دے یا پھر رمضان میں نصاب کے برابر جو رقم جمع ہوئی اس کی زکاۃ رمضان میں دے اور کمیٹی کی مد میں ملنی والی رقم کی زکاۃ شوال میں دے۔
اور اگر کمیٹی کی ماہانہ قسط نصاب تک نہیں پہنچتی، نہ ہی اس کے پاس کوئی اور رقم ہے جس سے نصاب پورا ہوتا ہو تو اس کی زکاۃ کا سال اس وقت شروع ہو گا جب کمیٹی کے لئے ادا کردہ رقم نصاب کے برابر ہو جائے۔
واللہ اعلم