"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
الحمدللہاللہ سبحانہ وتعالی نےاپنی کتاب عزيز میں فرمایا ہے :
اوراللہ تعالی کے لیے لوگوں پربیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جوبھی وہاں تک جانے کی استطاعت رکھے اورجوکوئي کفرکرے تواللہ تعالی سب جہانوں سے بے پرواہ ہے آل عمران ( 97 ) ۔
اورعلماء کرام کی استطاعت کے بارہ میں کلام یہ ہے کہ : استطاعت میں ایسی سواری جواسے مکہ تک پہنچائے اوراپنی غیرموجودگی کی مدت کا اپنے اہل وعیال اورجن کا خرچہ اس کے ذمہ لازم ہے ان کا خرچہ چھوڑنےاوراپنے ذمہ قرض کی ادائيگي کےبعد مکہ آنےجانے کا خرچہ بھی ہونا اورصحت بھی استطاعت میں شامل ہے ، اوراسی طرح عورت کے لیے محرم کی موجودگی بھی شرط ہے ۔
اورجبکہ آپکے مسلمان دوست کا مسئلہ صحت کے بارہ میں ہے توہم یہاں کچھ دیررکتے اوراس کے بارہ میں بحث کرتے ہيں :
مندرجہ بالاآیت کی تفسیرمیں عکرمہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ السبیل سے صحت مراد ہے ۔ دیکھیں : تفسیر ابن کثیر سورۃ آل عمران آیت نمبر ( 79 ) ۔
لھذا بدن کی امراض اوران عیوب سےسلامتی جوحج سے روکتی ہیں بھی حج کے وجوب کی شروط میں شامل ہوتی ہے ، لھذا اگرکوئي شخص ابدی مریض ہو یا کسی دائمی آفت کا شکارہویا پھربڑي عمرکا بوڑھا ہویا بسترپرہو جوایک جگہ سے دوسری جگہ نہ جاسکے اس پرفریضہ حج کی ادائيگي فرض نہيں ۔
اورجوشخص کسی دوسرے کے تعاون اورمدد سے حج اداکرسکتا ہواوراسے کوئي مددگاراورمعاون بھی میسرہوتواس پرفریضہ حج کی ادائيگي واجب ہوگی ۔ دیھکیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 17 / 34 ) ۔
ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
استطاعت کی کئي اقسام ہیں :
بعض اوقات توشخص خود ہی صاحب استطاعت ہوتا ہے ، اوربعض اوقات کسی دوسرے شخص کے ساتھ مل کرصاحب استطاعت ہوتا ہے جیسا کہ کتب احکام میں اس کا بیان موجود ہے ۔
دیکھیں : تفسیر ابن کثیر سورۃ آل عمران آیت نمبر ( 97 ) ۔
اورجس کسی شخص کوکوئي ایسی آفت اوربیماری لاحق ہوجس سے شفایابی کی امید نہیں اس کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنی جانب سے کسی دوسرے نائب کوحج پرروانہ کرے ، لیکن ایسا شخص جسے ایسی بیماری اورآفت لاحق ہوجوزائل ہوسکتی ہے اوراس سے شفایابی کی امید ہو تواسے انتظار کرنا چاہیے اورجب وہ آفت زائل ہوجائے تووہ بنفسہ خود فریضہ حج ادا کرے اوراس کے لیے حج کے لیے اپنانائب بناناجائزنہیں جواس کی طرف سے حج ادا کرے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 17 / 34 ) ۔
لھذا اوپرکی سطورمیں بیان کردہ کلام کی بنا پرآپ کے سوال کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے ، لھذا سائل عزيزسے گزارش ہے کہ آپ اپنے مسلمان دوست کویہ جواب بتادیں ، اورمیں اس سوال کے اہتمام پرآپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ جوکہ دین اسلام کے پانچویں رکن کے متعلقہ ہے کا شرعی حکم معلوم کرنا چاہا ہے ۔
اورمیں اسے فرصت سمجھتاہوں کہ آپ کودین اسلام کی دعوت دوں اورآپ کواس عظيم اور حق کے قافلہ میں شامل ہونے کی دعوت دوں جوکہ اسلام اورسلامتی کا قافلہ ہے آپ بھی اس میں شامل ہوجائيں ۔
واللہ اعلم .