"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
پہلي بات تويہ ہے كہ سوال كرنےوالے بھائي نے حديث كا ذكر كيا ہے كہ" تجارت تنخواہ سےافضل ہے" اور اسي طرح كي ايك اور حديث بھي پيش كي جاتي ہے" رزق كا نواں حصہ تجارت ميں ہے" يہ دونوں حديثيں ضعيف ہيں، علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ضعيف الجامع ( 2434 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
دوم :
آپ كےدوست نے جوتجويز پيش كي ہے كہ ہوٹل ميں گاہك اپنے ساتھ شراب لے كر آئيں، يہ تجويز شرعي طور پر باطل ہے، اور يہ بہت بري نصيحت ہے يا توتمہيں قصدا نقصان اور ضرر دينے كےليے ہے يا پھر كسي جاہل كي جانب سےہے جواللہ تعالي كا حكم بالكل نہيں جانتا.
يہ اس ليے كہ تم اپنےہوٹل كےاللہ تعالي كےہاں جواب دہ ہو، اورتمہارے ليے يہ حلال نہيں كہ اس ميں گناہ اور معصيت كےارتكاب كي اجازت دو، اور كسي مسلمان كوبھي شراب كےحرام ہونے ميں كوئي ذرا برابر شك نہيں، اور يہ بہت بڑي برائي ہے، لھذا اس برائي كےمتعلق آپ كا موقف كيا ہے؟ حالانكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
( تم ميں سے جو كوئي بھي برائي ديكھے اسے چاہيے كہ وہ اسے اپنےہاتھ سے روكے اگراستطاعت نہيں تو اپني زبان سے روكےاور اگر اس كي بھي استطاعت نہيں تو اپنےدل سے روكے ) صحيح مسلم حديث ( 49 ).
تو كياآپ نے آپ نےيہ برائي اپنے ہاتھ سے روكي ؟ اور كيا آپ نے يہ برائي اپني زبان سےروكي؟
اورايك دوسري بات يہ ہےكہ:
جابر رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( جوشخص اللہ تعالي اور يوم آخرت پر ايمان ركھتا ہے وہ اس دسترخوان پر نہ بيٹھے جہاں شراب چل رہي ہو ) جامع ترمذي حديث نمبر ( 2801 ).
اس حديث كےشواھدبھي جن سے يہ صحيح ہوجاتي ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي نے فتح الباري ( 9 / 250 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
آپ يہ نہ بھوليں كہ يہ دسترخوان آپ كا اورآپ كےہوٹل ميں ہے، اور صرف حقيقي بيٹھنا ہي مراد نہيں بلكہ اگر يہ كام كسي دوكان يا ايك ہوٹل ميں ہو، توتم ان كےساتھ گناہ ميں شريك ہو توپھر جب جگہ اور ہوٹل بھي تمہارا ہوتوپھر كيسے؟
اور اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالي تمہارے پاس اپني كتاب ميں يہ حكم اتار چكا ہے كہ تم جب كسي مجلس والوں كواللہ تعالي كي آيتوں كےساتھ كفر كرتےاور مذاق كرتے ہوئے سنو تواس مجمع ميں ان كےساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كےعلاوہ اور باتيں نہ كرنےلگيں، ورنہ تم بھي اس وقت انہي جيسےہو النساء ( 140 )
ابن كثير رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
يعني: جب تم نہي پہنچ جانےكےبعداس كےمرتكب ہوئےاور ان كےساتھ اس جگہ جہاں اللہ تعالي كي آيات كےساتھ كفر اور مذاق كيا جارہا ہوبيٹھنےپر راضي ہوئےاورانہيں اسي پر رہنےديا توتم بھي اس ميں شريك ہوجس طرح وہ ہيں، اسي ليے اللہ تعالي نےفرمايا:
بلاشبہ تم بھي انہي جيسےہو
گناہوں ميں جيسا كہ حديث ميں آيا ہےكہ:
جوبھي اللہ تعالي اور يوم آخرت پر ايمان ركھتا ہےوہ اس دسترخوان پر نہ بيٹھے جہاں شراب چل رہي ہو"
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 567- 568 ) .
ايك اورمعاملہ:
اگر كوئي سائل يہ سوال كرےكہ وہ كمائي كرنے كےليے ہوٹل كھولنا چاہتا ہے توايك نصيحت كرنے والے نےاسے نصيحت كي كہ وہ آدمي كواس كي اجازت دے كہ وہ كسي عورت كوبھي اپنےساتھ لائےتاكہ وہ اس ہوٹل ميں اس كے ساتھ سوسكے، اور يہ طريقہ ايسا ہے كہ اس سے بہت سےگاہك اس طرف كھنچے چلےآئيں گےتو كيا آپ اس طرح كي نصيحت پر اس كي موافقت كريں گے؟
اس كا جواب يہ ہے كہ ايسا قطعا نہيں ہوسكتا.
اور اسي طرح جس نے تمہيں يہ كہا ہے كہ اگر تم كمائي اور روزي چاہتےہو تو گاہكوں كواپنےساتھ شراب لانےكي اجازت دے دو، كوئي فرق نہيں دونوں حالتوں ميں آپ نےنہ توشراب پيش كي اور نہ ہي عورت، ليكن آپ نے يہ اجازت تودي كہ آپ كي آنكھوں كےسامنےاورآپ كي دوكان ميں حرام كام كا ارتكاب كيا جائے.
تواس بنا پر آپ كےليےحرام ہے كہ آپ كسي كو اپنےہوٹل ميں ايسي چيز لانے اورشراب نوشي كرنےكي اجازت ديں جواللہ تعالي نےحرام كردي ہے.
فرمان باري تعالي ہے:
اور جوبھي اللہ تعالي كا تقوي اور پرہيزگاري اختيار كرتا ہے اللہ تعالي اس كےليے نكلنےكي راہ بنا ديتا ہے اور اسے روزي وہاں سےديتا ہےجہاں سےاسےگمان بھي نہيں ہوتا الطلاق ( 2 - 3 )
لھذا تمہيں لوگوں كي باتيں دھوكہ ميں ڈال ديں كہ تمہيں اس وقت روزي ہي نہي مل سكتي جب تك تم ان حرام كاموں كي اپنےہوٹل ميں اجازت نہيں دوگے، كيونكہ اس طرح كےلوگ آپ كےخيرخواہ نہيں يا پھر وہ خير خواہي چاہتےہيں ليكن اس كي راہ بھٹك گئےہيں.
واللہ اعلم .