"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے اپنے خاوند كو بہت شديد ناراض كر ديا اور اسى حالت ميں اس سے طلاق كا مطالبہ كيا اور ايسا كرنے كے ليے اسے مجبور كيا ميں نے دروازہ بند كر كے اسے كہا تم اس وقت تك باہر نہيں نكل سكتے جب تك مجھے طلاق نہ دے دو، تو اس نے مجھے غصہ كى حالت ميں طلاق دے دى ليكن اسے مجھے طلاق دينے كى نيت نہ تھى، ميں اپنے اس فعل پر نادم ہوں كيا يہ طلاق واقع ہو چكى ہے يا نہيں ؟
الحمد للہ.
اول:
غصہ كى حالت ميں طلاق ميں سے كچھ كا معاملہ ايسا ہے كہ يہ علماء كے اتفاق كے مطابق واقع نہيں ہوتى، اور كچھ طلاق ايسى بھى ہے جو واقع ہو جاتى ہے، اس ميں غصہ كے درجہ كو مدنظر ركھا جائيگا.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 22034 ) اور ( 45174 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
حاصل يہ ہے كہ جس غصہ سے انسان كى سمجھ اور ادراك ہى جاتا رہے اور وہ اپنے قول كو سمجھ نہ پائے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى.
اور اسى طرح شديد غصہ جو انسان كو طلاق پر آمادہ كرے كہ اگر وہ شخص غصہ ميں نہ ہوتا اور اپنا اختيار ركھتا تو بيوى كو طلاق نہ ديتا، اس سے بھى راجح قول كے مطابق طلاق واقع نہيں ہوگى، اہل علم كى ايك جماعت نے اسے ہى اختيار كيا ہے، اس بنا پر جب آپ كے خاوند نے شديد غصہ كى حالت ميں طلاق كے الفاظ بولے تو طلاق واقع نہيں ہوئى.
دوم:
عورت كے ليے اپنے خاوند سے بغير كسى سبب اور تنگى كے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں، مثلا خاوند برا سلوك كرتا ہو اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى ضرورت و تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الباس: كا معنى شدت و تنگى اور ايسا سبب جس كى بنا پر طلاق طلب كى جا سكتى ہو.
ليكن اگر عورت نے يہ كام شديد غصہ يا پريشانى كى حالت ميں كيا ہے تو اسے اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور آئندہ ايسا مت كرے.
واللہ اعلم .