"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نماز ميں عورت كے ليے مردوں كى امامت كروانى جائز نہيں، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورتوں كو پيچھے ركھو كيونكہ اللہ تعالى نے بھى انہيں پيچھے ركھا ہے"
مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 5115 ) يہ روايت اس سے بھى لمبى ہے اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ پر موقوف ہے، اس كى سند صحيح ہے، ليكن مرفوع ہونا ثابت نہيں.
پھر مسجد ميں امامت كا منصب تو حكمرانى اور ولايت كى ايك قسم ہے، اور ولايت مردوں كے علاوہ كسى اور كے ليے صحيح نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" وہ قوم كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات عورت كے سپرد كر ديے "
صحيح بخارى ( 13 / 46، 45 ).
اس ليے كہ حنابلہ كے ہاں عورت كا مسئلہ مستثنى ہے، يہ قول ضعيف ہے كہ اگر عورت اچھى قاريہ ہو تو وہ تراويح ميں ان پڑھ مردوں كى امامت كروا سكتى ہے، عورت ان كے پيچھے ہو اور وہ اس كے آگے كھڑے ہوں.
ليكن اس كى كوئى دليل نہيں، حاصل يہ ہوا كہ عورت كے جائز نہيں كہ وہ مردوں كى امامت كروائے.
جى ہاں عورت اپنى جيسى عورتوں كى امامت كروا سكتى ہے، اگر وہ امامت كروائے تواس ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں كوئى مانع نہيں جيسا كہ ام ورقہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے كہ وہ اپنى محرم عورتوں كى امامت كروايا كرتى تھيں.
ليكن اجنبى مردوں يا پھر عمومى ولايت مثلا مسجد كى امامت وغيرہ تو يہ عورت نہيں كر سكتى.
واللہ اعلم .