جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا بيوى كے ليے اپنے خاوند كو اپنا مال خرچ كرنے كے بارہ ميں بتانا ضرورى ہے ؟

112174

تاریخ اشاعت : 09-02-2013

مشاہدات : 16185

سوال

پانچ ماہ قبل ميرى ايك مدرسہ عورت سے شادى ہوئى اور شب زفاف ميں عقد نكاح ميں عورت كے ولى كى جانب سے كچھ شروط لكھى گئيں، ان شروط ميں يہ شرط بھى شامل تھى كہ ميں بيوى كى تنخواہ سے كچھ نہيں لوں گا، ميں نے شرط مان لى ليكن ميں نے بھى ايك شرط ركھى كہ بيوى مجھے يہ ضرور بتائےگى كہ وہ اپنى تنخواہ كہاں خرچ كر رہى ہے تا كہ مجھے بھى علم ہو، اس شرط پر اس كے دو بھائى اور جو كہ عقد نكاح ميں گواہ بھى تھے اور ان كے والد نے موافقت بھى كر لى، اور نكاح خواں بھى.
سب نے يہى كہا كہ يہ ميرا حق ہے، جب ميں نے سب كو اس پر متفق پايا اور كوئى اعتراض نہ ديكھا تو ميں نے شرط لكھوائى نہيں بلكہ زبانى ہى رہنے دى كہ سب اس شرط و سمجھ چكے ہيں، ليكن اب مجھے بيوى كى جانب سے ايك مشكل كا سامنا ہے كہ جب ميں اسے تنخواہ خرچ كرنے كا پوچھتا ہوں كہ وہ يہ تنخواہ كہا خرچ كر رہى ہے تو وہ مجھے بالكل نہيں بتاتى اور جواب ديتى ہے كہ اسے يہ دريافت كرنے كا حق ہى حاصل نہيں، اور جب تنخواہ كى مقدار پوچھتا ہوں تو بھى وہى جواب ہوتا ہے، حالانكہ ميں صرف جاننے كے ليے پوچھتا ہوں.
جب ميں نے اسے بتايا كہ ميں شادى كے وقت يہ شرط ركھى تھى اور اس كے بھائى اور والد نے شرط تسليم كى تھى تو كہتى ہے اسے اس شرط كے بارہ ميں كسى نے نہيں بتايا اور پھر وہ يہ بھى كہتى ہے كہ اگر شرط ركھى بھى گئى ہو تو بھى نہيں مانتى اور تمہيں بتاؤنگى، ميں صرف يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ اس كى تنخواہ كتنى ہے اور كہاں خرچ كرتى ہے، بلكہ وہ تو اس پر بھى مصر ہے كہ اس سلسلہ ميں مجھ سے اجازت كى بھى ضرورت نہيں.
حالانكہ ميں صرف علم كے ليے پوچھ رہا ہوں برائے مہربانى مجھے ميرى بيوى كے موقف كو سامنے ركھتے ہوئے بتايا جائے كہ آيا يہ صحيح ہے اور اس كے دلائل بھى بيان كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اصل تو يہى ہے كہ عقل و رشد ركھنے والى عورت كو اپنے مال ميں تصرف كرنے كا اختيار ہے وہ جہاں چاہے صرف كر سكتى ہے، اسے نہ تو اس كى اپنے خاوند سے اجازت لينے كى ضرورت ہے، اور نہ ہى خاوند كو بتانے كى ضرورت، جمہور فقھاء كرام تو يہى كہتے ہيں، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 4037) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.

اسلامى فقہ اكيڈمى كى قرار يہ ہے كہ:

يہ قرار اكيڈمى كے سولويں اجلاس منعقدۃ 30 صفر تا 5 ربيع الاول 1426 هـ الموافق 9 تا 14 اپريل 2005 عيسوى ميں پاس كى گئى:

اول: خاوند اور بيوى كے مابين مالى ذمہ كا انفصال:

خاوند كو اپنے مال ميں مكمل اور مستقل تصرف كى اہليت حاصل ہے، اور اسے اپنى كمائى اور مال ميں شريعت كے احكام كے تابع رہتے ہوئے پورا تصرف كا حق حاصل ہے، اور وہ اس كى خاص ملكيت ہوگا، وہ اس كے تصرف ميں ہے اور وہ اس كى مالك ہے، خاوند كو بيوى كے مال پر كوئى زور حاصل نہيں، اور نہ ہى بيوى اپنے مال ميں تصرف كرنے ميں خاوند سے اجازت حاصل كريگى.

......

پنجم: ملازمت كى شروط:

1 - بيوى كے ليے عقد نكاح ميں شرط ركھنے كى اجازت ہے كہ وہ گھر سے باہر ملازمت كريگى، اگر خاوند اس شرط پر راضى ہو كر اس سے شادى كرتا ہے تو خاوند اس شرط پر عمل كريگا، ليكن عقد نكاح كے وقت شرط پورى وضاحت و صراحت كے ساتھ بيان كى گئى ہو.

خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ بيوى كو ملازمت كى اجازت دينے كے بعد گھر اور اولاد كى مصلحت كى خاطر ملازمت چھوڑنے كا مطالبہ كرے " انتہى

ليكن بيوى كے ليے اپنے خاوند سے اجازت لينى مستحب ہے، اور اپنے تصرفات ميں خاوند سے مشورہ كرنا مستحب ہے، اور وہ اس ميں خاوند كى مخالفت مت كرے كيونكہ حديث ميں وارد ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا: سب سے بہتر كونسى عورت ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب خاوند اسے ديكھے تو بيوى اسے خوش كر دے، اور جب خاوند اسے حكم دے تو بيوى اس كى اطاعت كرے، اور اپنے نفس اور مال ميں خاوند كى مخالفت مت كرے جسے وہ ناپسند كرتا ہو "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3231 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر خاوند عقد نكاح كے وقت شرط ركھے كہ بيوى اسے اپنا مال خرچ كرنے كى سب جگہوں كے متعلق بتائے گى، تو يہ شرط پورى كرنا واجب ہوگى، كيونكہ حديث ميں وارد ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تمہارے ليے سب سے زيادہ شرطيں پورى كرنے كا حق ان شروط كو ہے جن كے ساتھ تم شرمگاہوں كو حلال كرتے ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).

ليكن بيوى كو يہ شرط پورى كرنا اس صورت ميں لازم ہو گى جب اسے اس شرط كے بارہ ميں علم ہو اور بتايا گيا ہو، اور و اس شرط پر راضى ہو جائے، يا پھر اس نے اپنے ولى كو كہا ہو كہ وہ جو مناسب ہو شرط ركھ سكتا اور قبول كر سكتا ہے، ليكن اگر ولى كو اس كى ذمہ دارى نہ دى گئى ہو اور بيوى كو شرط كا علم بھى نہ ہو تو پھر اس پر وہ شرط لازم نہيں كى جائيگى كہ وہ شرط پر عمل كرے، يہاں اس كے ولى كى غلطى ہے جس نے بچى كو بتائے بغير ہى شرط مان لى.

دوم:

ہميں تو يہ معاملہ بہت آسان معلوم ہوتا ہے، جب آپ صرف اس كے خرچ كرنے كا علم چاہتے ہيں تو پھر اس ميں آپ كو سختى نہيں كرنى چاہيے، كہ اس سے اختلافات كا دروازہ كھوليں، چنانچہ جب بيوى كو شرط كا علم ہى نہيں تو پھر وہ شرعى طور پر اپنے مال ميں تصرف كا پورا حق ركھتى ہے، اور اسے آپ كو اس كے بارہ ميں بتانا لازم نہيں.

يہ ياد ركھيں كہ خاوند اور بيوى كا ايك دوسرے واجب حقوق كا علم ركھنے ميں ہى آپس ميں حصول الفت و مودت اور محبت اور سعادتمند زندگى كا باعث ہے، پھر فضيلت و نيكى كا مسئلہ رہ جاتا ہے اور يہ آپس ميں ايك دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ كرنے اور اپنے كام اور غم ميں ايك دوسرے سے مشورہ كرنے ميں پيدا ہوتى ہے.

جس طرح بيوى كے ليے اپنے خاوند كو اپنے مالى تصرفات كے بارہ ميں بتانا لازم نہيں، اسى طرح خاوند كے ليے اپنى تنخواہ كے بارہ ميں بتانا لازم نہيں كہ اس كى تنخواہ كتنى ہے اور كہاں صرف كرتا ہے، ليكن يہ سلوك بيوى كو پسند نہيں ہوگا، اور نہ ہى اس پر غالبا ايك سعادتمند ازدواجى زندگى قائم رہ سكتى ہے.

اس ليے ہم يہى كہيں گے كہ: جس طرح بيوى چاہتى ہے كہ وہ خاوند كى تنخواہ اور كہاں خرچ كرتا ہے كا علم ركھے، اسى طرح خاوند بھى يہى پسند كرتا ہے، اس طرح ايك سعادتمند ازدواجى زندگى قائم ہو سكتى ہے، جس ميں ہر ايك كے اپنے خاص اسرار و رموز كى كوئى گنجائش نہيں ہے.

يہاں خاوند اور بيوى دونوں كو ہى كہا جائيگا كہ آپس كے تعلقات ميں اس طرح چھپاؤ اور خصوصيت نہيں ہونا چاہيے كہ اس حد تك جائيں اور آپس ميں اختلاف شروع ہو جائے، لہذا خاوند اور بيوى كے مابين جو تكلف اور موانع پيدا ہو جائيں انہيں ختم كرنا چاہيے تا كہ دونوں ميں حسن معاشرت پيدا ہو، اور اللہ سبحانہ و تعالى ان كے مابين جو الفت و محبت اور مودت و سكون چاہتا ہے وہ پيدا ہو.

ہمارى اس بيوى كو يہى نصيحت ہے كہ وہ اپنے خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كرتے ہوئے ايسے تصرفات چھوڑ دے جس سے خاوند يہ محسوس كرنے لگے كہ وہ بيوى سے ايك اجنبى شخص كى حيثيت ركھتا ہے، اور يہ سمجھنے لگے كہ دونوں كے مابين ايسے پردے ہيں جو انہيں ايك دوسرے پر اعتماد نہيں كرنے ديتے.

اس طرح خاوند كا اپنى بيوى سے اعتماد اٹھ جائيگا جس كا ان كى زندگى پر سلبى اثر پڑيگا، اس ليے خاوند كو بھى اور بيوى كو بھى ايك دوسرے پر اعتماد كرنا ہوگا، اگر ايك دوسرے پر اعتماد نہيں تو اس كا انجام اچھا نہيں ہوگا، بعد ميں وہ ان امور ميں بھى سختى كريں جہاں سختى كى ضرورت نہيں تھى.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے مابين محبت و الفت پيدا كرے، اور آپ دونوں كو نفس كے شر اور شيطان كى چالوں سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب