جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

گناہ کرنے کے کئی طریقوں کا عادی ہوگیا ، اور صرف ایک طریقے سے گناہ نہ کرنے کا اللہ سے وعدہ کیا۔

200855

تاریخ اشاعت : 10-02-2014

مشاہدات : 8191

سوال

میں جو کچھ بھی ہوا سب بیان کرونگا، میرا سوال یہ ہے کہ میں وقفے وقفے سے مختلف طریقوں سے گناہ کیا کرتا تھا، ایک دن میں نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ ایک طریقے کو چھوڑ دونگا، میں نے اُسی وقت سجدہ کیا، اور اللہ سے دعا کی، اگر میں نے دوبارہ گناہ کیا تو میرے اعضاء کو فالج میں مبتلا کردینا، اس دعا کے دوران میں نے ایک طریقے کو تحدید کرتے ہوئے ذکر بھی کیا، اس لئے کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں صرف ایک طریقے سے گناہ نہیں کرونگا، جبکہ دوسرے طریقے کے بارے میں میرا ذہن یہ تھا کہ میں اُس کے ذریعے گناہ کرتا رہونگا، میری دعا میں کچھ غیر مناسب الفاظ بھی تھے، پھر ایک ماہ بعد ہی میں وہی گناہ کر بیٹھا جس کے نہ کرنے کا میں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا، مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں نے اپنی دعا میں اللہ تعالی کا ادب ملحوظِ خاطر نہیں رکھا تھا۔
آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ انداز دعا میں لغو شمار ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی بات:

جسکی وجہ سے آپکو پریشان ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ نے گناہ کیا، اور یہ سچے دل سے توبہ نہ ہونے کے باعث ہوا ، یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد گناہ کا ارتکاب بھی کرلیا!!

اللہ کے بندے! تم کس کو دھوکہ دینا چاہتے ہو؟! اللہ کے واسطے ذرا سوچو تو صحیح!

کیا اپنے رب کو ، جس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی کیا، اور سجدے میں جاکر دعا بھی مانگی۔۔۔ پھر اس سب کے باوجود ایک اضافی راستہ گناہ کرنے کیلئے ذہن میں چھپا کر رکھا، تا کہ اللہ کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہ ہو؟!!

ایسی عجیب بات ہم نے کبھی نہیں سنی تھی!!

غیب کے بھید جاننے والی ذات سے تم گناہ کا طریقہ چھپانا چاہتے ہو!!

تم گناہ سے توبہ بھی چاہتے ہو، اور گناہ کیلئے محفوظ راستہ بھی چھپا رہے ہو؟

اللہ کے بندے! یہ تو بڑی ہی بُری توبہ ہے!!

اللہ کے بندے! توبہ تو اسے کہتے ہیں کہ کُلّی طور پر گناہ کو اپنے آپ سے دور کر لو، اور ماضی کے کرتوتوں پر ندامت ہو، اور پکے سچے ارادے کے ساتھ یہ عزم کرو کو آئندہ کبھی بھی گناہ نہیں کرنا؛ توبہ اس چیز کا نام نہیں ہے کہ گناہ کا دروازہ بند کردو، اور کھڑکی سے گناہ کرتے جاؤ؛ یہ تو تم نے دین کو کھیلونا بنا لیا ہے، اور اپنے رب کو ہاتھ دیکھانے کے مترادف ہے، اللہ کے بندے ذرا سوچ تو سہی!؟

دوسری بات:

اللہ تعالی کے ساتھ جو بھی کوئی وعدہ کرے، کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اور پھر اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر بیٹھے تو اسے قسم کا کفارہ دینا ہوتا ہے: دس مساکین کو کھانا کھلائے، یا انہیں سوٹ پہنائے، یا ایک غلام آزاد کرے، جس کے پاس یہ نہ ہوں تو تین دن کے روزے رکھے۔

آپ (47738)اور(38934)سوالات کے جوابات بھی ملاحظہ کریں۔

یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ اپنے خلاف بد دعا کرنا جائز نہیں ہے، یا اپنے آپ پر لعنت کرنا بھی درست نہیں ، چاہے آپ اس کے ذریعے اپنے آپ کو گناہوں سے ہی کیوں نہ روکنا چاہتے ہو۔

اس کیلئے سوال نمبر (145757)کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

لیکن آپ پر صرف کفارہ ہی لازم نہیں ہے، بلکہ آپ پر ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق درست کرو، آپ دوبارہ سے توبہ کریں؛ کیونکہ آپ نے پہلے توبہ کی ہی نہیں تھی، اس لئے اللہ کے بندے! گناہوں سے توبہ کرنے میں جلدی کرو، اس سے پہلے کے وقت ہاتھ سے جاتا رہے، اور پھر پشیمانی کا سامنا کرنے پڑے ، اور اس وقت پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

دھیان رکھنا! اللہ تعالی کی ذات بہت مہربان، اور نہایت ہی رحم کرنے والی ہے، وہ والدہ سے بڑھ کر اپنی مخلوق پر مہربان ہے، رات کے لمحات میں ہاتھ پھیلا تا ہے، تا کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے، اور دن کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرلے، جو اللہ سے مدد مانگتا ہےاللہ تعالی اسکی ضرور مدد فرماتا ہے ، اور جو ہدایت طلب کرتا ہے، اللہ تعالی اسے ضرور ہدایت دیتا ہے، اس لئے کمزوری مت دِکھانا، اور نہ ہی سستی سے کام لینا، اور اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا، کیونکہ ان کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

( إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ )

ترجمہ: بیشک اللہ کی رحمت سے ناامید کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ یوسف/87

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر تم اللہ کی طرف سچے دل ، پختہ عزم، اور ارادے کیساتھ چل پڑو تو وہ ذات تمہیں راستے میں ہی نہیں چھوڑے گی بلکہ منزل پر پہنچائے گی، کیونکہ قران مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ )

ترجمہ: اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقینا انھیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ العنكبوت/69

اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اللہ رب العزت فرماتا ہے میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق ان سے معاملہ کرتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اُسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہے اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک ہاتھ قریب ہوتو میں ایک باع –دونوں ہاتھوں کو دائیں بائیں کھولنے کے بعد کا درمیانی فاصلہ- اسکے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب