جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

کسی زندہ یا فوت شدہ شخص کیلئے قرآن خوانی کا حکم

سوال

میری والدہ ان پڑھ ہیں، اور میں ان کیساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے تلاوتِ قرآن کا ثواب انہیں ہدیہ کرتا ہوں، تاہم جب میں نے یہ سنا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، تو میں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا، اور اب میں انکی طرف سے مالی صدقہ کرتا ہوں، وہ ابھی تک قید حیات ہیں، تو کیا انہیں زندہ یا فوت ہونے کی صورت میں مالی یا کسی اور قسم کے صدقے کا ثواب پہنچتا ہے؟ یا پھر انہیں صرف دعا ہی کا فائدہ ہوتا ہے؛ کیونکہ حدیث میں صرف دعا کا ہی ذکر ہے، جیسے کہ حدیث ہے کہ: (جب انسان فوت ہوئے جائے تو تین چیزوں کے علاوہ اس کا ہر عمل منقطع ہو جاتا ہے: ان میں سے ایک ہے: نیک صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرے) اور کیا انسان اگر اپنے والدین کیلئے نماز و غیرہ میں کثرت سے دعا کرتا ہو کہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت والدین کیلئے دعا کرتا رہے، تو کیا اس حدیث کے مطابق اس کیلئے نیک صالح اولاد ہونے کی دلیل بن سکتی ہے؟ کہ اللہ کے ہاں وہ نیک صالح ہی ہوگا؟ میں آپ سے وضاحت کا متمنی ہوں، اللہ تعالی آپکو ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے۔ آمین

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآن خوانی کے بارے میں ا ہل علم کی مختلف آراء ہیں، کہ اسکا ثواب  میت کو پہنچتا ہے یا نہیں؟ اس  بارے میں دو اقوال ہیں، تاہم ان میں سے راجح قول یہی ہے کہ  قرآن خوانی کا ثواب  انہیں نہیں پہنچتا، کیونکہ اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فوت ہونے والے مسلمانوں کیلئے ایسا عمل کبھی نہیں کیا، مثلاً: آپ کی بیٹیاں رضی اللہ عنہن  آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں فوت ہوئیں، حتی کہ ہمارے علم کے مطابق صحابہ کرام نے بھی  ایسا عمل کبھی نہیں کیا، اور ایک مسلمان کو چاہیے کہ  فوت شدگان یا زندہ افراد کیلئے قرآن خوانی ، اور نوافل کی ادائیگی مت کرے، اسی طرح ان کی طرف سے نفل روزے بھی نہ رکھے، کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور عبادات کے بارے میں اصل توقیف ہے  یعنی کہ اللہ اور اس کے رسول سے ثابت  عبادات ہی کی جائیں، [دیگر ہر قسم کی عبادت سے توقف اختیار کیا جائے]

جبکہ صدقہ کرنے سے  زندہ و فوت شدہ سب کو  فائدہ ہوتا ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، بالکل اسی طرح دعا کرنے سے بھی زندہ و فوت شدہ تمام  کو فائدہ ہوتا ہے، اس پر بھی تمام مسلمانوں کو اجماع ہے،  لیکن  دعا اور  صدقے  سے فائدہ ہونے کے بارے میں صرف میت کا ذکر حدیث میں آیا ہے، اور محل اشکال  بھی  میت کا مسئلہ ہی  ہے کہ کیا میت کو  ان کا فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر مان ہے کہ: (جب ابن آدم فوت ہو جائے، تو اس کا عمل  تین چیزوں کےعلاوہ منقطع ہو جاتا ہے: صدقہ جاریہ، علم  جس سے لوگ مستفید ہوں، اور نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرے) اور وفات کے بعد سب کو علم ہے کہ  اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی  کہ ان  تین چیزوں  پر مشتمل اعمال منقطع نہیں ہوتے، اور زندہ شخص کے بارے میں  تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ اگر وہ خود اپنی طرف سے صدقہ کرے یا کوئی اور اس کی طرف سے صدقہ کرے تو اسے ضرور فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح وہ دعا سے بھی مستفید ہوتا ہے، چنانچہ جو شخص اپنے والدین کیلئے انکی زندگی میں دعائیں کریں تو  انہیں ان دعاؤں کا فائدہ ہوگا، اسی طرح ان کی زندگی میں انکی طرف سے صدقہ کرنے پر بھی مستفید ہونگے۔

یہی حکم حج کے بارے میں ہے کہ اگر والدین بڑھاپے یا ناقابل شفا بیماری کی وجہ سے حج  کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو  ان کی طرف سے حج کرنے کا انہیں فائدہ ہوگا، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک حدیث ہے کہ :  ایک عورت نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:  "اللہ کی طرف سے فریضہ حج میرے والد پر اتنے بڑھاپے کی حالت میں فرض  ہو چکا  ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ ہی نہیں سکتے، تو کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم انکی طرف سے حج کرو)

اسی طرح ایک اور آدمی آیا اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! میرا والد بہت بوڑھا ہے، وہ حج نہیں کر سکتا، اور نہ حج کا سفر کر کرسکتاہے، تو کیا میں انکی طرف سے حج اور عمرہ کروں؟" تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو)، چنانچہ اس حدیث میں واضح ہے کہ کسی میت یا زندہ لیکن  بڑھاپے کی وجہ سے حج  کرنے کی استطاعت نہ رکھنے والے بوڑھے مرد یا بوڑھی خاتون کی طرف سے حج کرنا جائز ہے، اسی طرح صدقہ، دعا، حج یا عمرہ  کرنا میت  یا عاجز شخص کی طرف سے تمام اہل علم کے ہاں جائز ہے۔

اسی طرح اگر میت پر واجب  نذر، کفارہ، یا قضائے رمضان  کے روزے باقی ہوں  تو انکی طرف سے روزے رکھنا بھی ان کیلئے سود مند ہوگا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ان تمام اقسام کے روزوں کیلئے عام ہے: (جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزے واجب ہوں، تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا) اس حدیث کی صحت کے بارے میں سب کا اتفاق ہے۔

اسی طرح اس بارے میں دیگر احادیث بھی وارد ہیں،  لیکن جو شخص  رمضان میں  کسی شرعی عذر مرض یا سفر کی بنا پر  روزے نہیں رکھ سکا، اور پھر ان روزوں کی قضا دینے سے پہلے پہلے فوت ہو گیا تو اس پر قضا نہیں ہوگی،  اور نہ ہی اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے گا، کیونکہ اس نے شرعی عذر کی بنا پر روزے نہیں رکھے۔

بھائی آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ  آپ  اپنے والدین  کی طرف سے صدقہ اور والدین کیلئے دعا کر کے  ان شاء اللہ نیکیاں کما رہے ہیں، اور اگر اولاد نیک ہو تو  دعا کی قبولیت  کے امکانات مزید روشن ہو جاتے ہیں، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [جاری رہنے والے تین اعمال کے بارے میں]فرمایا: (یا  نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرے) کیونکہ نیک اولاد کی دعا فاجر اولاد کی دعا سے زیادہ قبول ہوتی ہے، تاہم یہ الگ بات ہے کہ سب کو اپنے والدین کیلئے دعا کرنی چاہیے،  تاہم اگر اولاد نیک ہو تو والدین کیلئے دعا قبول ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں"

واللہ اعلم.

ماخذ: ماخوذ از: "مجموع فتاوى ومقالات"از سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ(4/348)