جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

نماز جمعہ كے ساتھ نماز عصر جمع كرنا صحيح نہيں

26198

تاریخ اشاعت : 15-06-2010

مشاہدات : 11125

سوال

ميں دوران سفر ايك بستى ميں ركا اور بستى والوں كے ساتھ نماز جمعہ ادا كى، اور نماز جمعہ كے بعد اٹھ كر عصر كى نماز ادا كرلى، يعنى ميں نے جمعہ اور عصر كو جمع كيا، ميرے ساتھ كچھ دوست تھے جنہوں نے مجھ پر اعتراض كيا اور كہنے لگے جمعہ كے ساتھ عصر كى نماز جمعہ كرنا جائز نہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كے دوست كا كہنا صحيح ہے كہ نماز جمعہ كے ساتھ عصر جمع نہيں ہو سكتى، بلكہ شريعت ميں نماز ظہر كو نماز عصر اور نماز مغرب كو نماز عشاء كے ساتھ جمع كرنا ثابت ہے.

اس بنا پر آپ جمعہ كے ساتھ جمع كردہ عصر كى نماز لوٹائيں، كيونكہ آپ نے نماز وقت سے قبل ادا كى تھى، اور وقت سے قبل نماز ادا كرنا باطل ہے صحيح نہيں.

اس مسئلہ ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

" جس حالت ميں نماز ظہر كو عصر كے ساتھ جمع كرنا جائز ہے، اس حالت ميں نماز جمعہ كے ساتھ عصر جمع كرنا جائز نہيں.

اگر كوئى مسافر كسى علاقے سے گزرے اور ان كے ساتھ نماز جمعہ ادا كرے تو اس سے كے جمعہ كے ساتھ عصر كى نماز جمع كرنى جائز نہيں.

اور اگر بارش ہو تو نمازيں جمع كرنا مباح ہيں ـ بارش كى بنا پر ظہر اور عصر كى نماز جمع كرنا جائز ہے ـ ليكن عصر كو جمعہ كے ساتھ جمع كرنا جائز نہيں.

اور اگر وہ مريض جس كے ليے نمازيں جمع كرنا جائز ہوں نماز جمعہ ميں حاضر ہو تو نماز جمعہ كے ساتھ عصر كى نماز جمع كرنا جائز نہيں.

اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا مؤمنوں كے ليے وقت مقررہ پر نماز كى ادائيگى فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).

يعنى: نماز وقت مقررہ كے ليے فرض ہے، اور اس اجمالى وقت ميں مندرجہ ذيل فرمان ميں بيان كيا ہے:

آفتاب كے ڈھلنے سے ليكر رات كى تاريكى تك نماز قائم كريں، اور فجر كا قرآن پڑھنا بھى، يقينا فجر كے وقت كا قرآن پڑھنا حاضر كيا گيا ہے الاسراء( 78 ).

لہذا آفتاب كا ڈھلنا، سورج كا زوال ہے، اور رات كى تاريكى، رات كا اندھيرا چھا جانا ہے، اور يہ آدھى رات ہے، يہ وقت چار نمازوں كو مشتمل ہے، ظہر، عصر، مغرب، اور عشاء، ان سب كو ايك ہى وقت ميں جمع كيا گيا ہے؛ كيونكہ ان كے اوقات ميں كوئى انفصال نہيں، اس ليے جب بھى ايك نماز كا وقت ختم ہوا اس كے بعد والى نماز كا وقت شروع ہو جائيگا، اور نماز فجر كے وقت ميں انفصال ہے، كيونكہ يہ نماز عشاء كے ساتھ نہيں ملتى اور نہ ہى نماز ظہر كے ساتھ متصل ہے.

سنت نبويہ ميں ان اوقات كى تفصيل مندرجہ ذيل حديث ميں كچھ اسطرح بيان ہوئى ہے:

عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور جابر رضى اللہ تعالى عنہما وغيرہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ظہر كى نماز كا وقت زوال آفتاب سے ليكر ہر چيز كا سايہ اس كى مثل ہونے تك ہے، اور نماز عصر كا وقت ہر چيز كا سايہ اس كى مثل ہونے سے ليكر غروب آفتاب تك ہے، ليكن سورج زرد ہو جانے كے بعد ضرورت كى بنا پر نماز ادا كرنے كا وقت ہے، اور نماز مغرب كا وقت غروب آفتاب سے ليكر سرخى غائب ہونے تك ہے، اور نماز عشاء كا وقت سرخى غائب ہونے سے ليكر آدھى رات تك ہے، اور نماز فجر كا وقت طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك ہے.

كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ ميں نمازوں كے اوقات كى حدود يہ ہيں جو بيان ہوئى ہے.

لہذا جس نے بھى كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ميں محدود كردہ وقت سے قبل نماز ادا كى وہ گنہگار ہے، اوراسكى نماز واپس كردى جائيگى كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كريگا وہى ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

اور اسى طرح جس نے بغير كسى شرعى عذر كے وقت گزر جانے كے بعد نماز ادا كى وہ بھى مردود ہے.

لہذا جس شخص نے زوال آفتاب سے قبل ہى ظہر كى نماز ادا كر لى تو اس كى نماز باطل اور مردود ہے، اسے وہ نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى، اور جس شخص نے نماز عصر وقت ہر چيز كا سايہ ايك مثل ہونے سے قبل ادا كرلى اس كى نماز بھى باطل اور مردود ہے، اسے بھى نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى، ليكن اگر كوئى شرعى عذر ہے تو اسكے ليے جمع جائز ہے اور وہ اسے نماز ظہر كے ساتھ مقدم كرتے ہوئے جمع كر سكتا ہے.

اور جس شخص نے مغرب كى نماز غروب آفتاب سے قبل ادا كر لى تو اس كى نماز باطل اور مردود ہو گى، وہ نماز دوبارہ ادا كرے گا.

اور جس نے نماز عشاء سرخى غائب ہونے سے قبل ادا كى تو اس كى نماز بھى باطل اور مردود ہے، اسے وہ نماز دوبارہ ادا كرنى چاہئے، ليكن اگر كوئى شرعى عذر ہے جس كى بنا پر نمازيں جمع ہو سكتى ہيں تو وہ نماز عشاء كو مقدم كر كے مغرب كے ساتھ ادا كرسكتا ہے.

اور جس شخص نے نماز فجر طلوع فجر سے قبل ادا كى تو اس كى نماز باطل اور مردود ہے، اسے وہ نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى.

كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا تقاضا يہى ہے.

اس بنا پر جس نے عصر كى نماز جمعہ كے ساتھ جمع كى اس نے وقت شروع ہونے سے قبل نماز ادا كى، جو كہ ہر چيز كا سايہ ايك مثل ہے، تو اس كى نماز باطل اور مردود ہے.

اگر كوئى قائل يہ كہے كہ:

كيا جمعہ كے ساتھ عصر كو جمع كرنے كے ليے ظہر كے ساتھ عصر كو جمع كرنے پر قياس نہيں كيا جا سكتا ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

يہ كئى ايك وجوہات كى بنا پر جائز نہيں:

اول: يہ عبادات ميں قياس ہے.

دوم:

نماز جمعہ ايك مستقل اور منفرد نماز ہے، اس كے احكام ظہر كى نماز سے مختلف ہيں جن كى تعداد تقريبا بيس سے بھى زيادہ ہے، اس طرح كے فرق ہونے كى صورت ميں دونوں نمازوں كو ايك دوسرى كے ساتھ ملحق كرنے اور ملانے ميں مانع ہيں.

سوم:

يہ قياس ظاہر سنت كے خلاف ہے، كيونكہ صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ:

" مدينہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء بغير كسى خوف اور بارش كے جمع كيں"

تو جب ان سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ امت حرج اور مشكل ميں نہ پڑے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بارش ہوئى جس ميں مشقت بھى تھى ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز جمعہ اور عصر كو جمع نہيں كيا، جيسا كہ صحيح بخارى وغيرہ ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جمعہ كے روز منبر پر بارش كے ليے دعا فرمائى اور جب منبر سے نيچے اترے تو آپ كى داڑھى سے بارش كے قطرے ٹپك رہے تھے"

اور يہ اس وقت ہو سكتا ہے جب بارش بہت زيادہ ہو اگر نماز جمعہ اور عصر جمع كرنى جائز ہوتى تو جمع كرتے، راوى كہتے ہيں:

" اور دوسرے جمعہ كے روز ايك شخص مسجد ميں داخل ہوا اوركہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مال غرق ہو رہا ہے، اور گھر منہدم ہو رہے ہيں، اللہ تعالى سے بارش ركنے كى دعا فرمائيں "

اور اسطرح كى حالت يہ ضرورى ہے كہ راستوں ميں كيچڑ ہو جو جو عصر اور جمعہ جمع كرنے كو مباح كر دے، اور اگر كوئى قائل يہ كہے كہ: عصر كو جمعہ كے ساتھ جمع كرنے كى ممانعت كى دليل كہاں ہيں ؟

تو اس كا جواب ہے كہ:

يہ سوال كيا ہى نہيں جا سكتا؛ كيونكہ عبادات ميں اصل تو ممانعت ہے ليكن اگر كوئى دليل پائى جائے، لہذا جو شخص ظاہرى يا باطنى اعمال كے ساتھ عبادت كرنے سے منع كرے اس سے ممانعت كى دليل نہيں مانگى جائيگى بلكہ دليل تو اس سے طلب كى جائيگى جو اس كو عبادت سمجھ كر سرانجام دے رہا ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے ان لوگوں كو جو بلا شرع كے عبادت كرتے تھے ان كے متعلق يہ فرمايا ہے:

كيا ان كے ليے كوئى ايسے شريك ہيں جنہوں نے ان كے ليے ايسا دين مشروع كر ديا جس كى اللہ تعالى نے اجازت ہى نہيں دى الشورى ( 21 ).

اور ايك مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:

آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت كو پورا كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں المآئدۃ ( 3 ).

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

تو اس بنا پر: اگر كوئى قائل يہ كہتا ہے كہ: عصر كو جمعہ كے ساتھ جمع نہ كرنے كى دليل كيا ہے ؟

ہم اسے يہ كہينگے:

اس كے جائز كى دليل كيا ہے ؟

كيونكہ اصل تو يہ واجب ہے كہ نماز عصر كو اس كے وقت ميں ادا كيا جائے، اور جمع كرنے كے سبب كى موجودگى ميں اس اصل كى خلاف كرتے ہوئے نمازيں جمع ہونگى، اور اس كے علاوہ باقى ميں اپنے اصل پر ہى رہے گى وہ يہ كہ اسے وقت سے پہلے ادا كرنا ممنوع ہے.

اور اگر كوئى قائل يہ كہے: اچھا يہ بتائيں كہ اگر وہ نمازجمعہ كى ادائيگى ميں نماز ظہر كى نيت كر لے تا كہ نماز عصر جمع كر سكے تو كيا حكم ہو گا ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

اگر تو شہر والوں كے امام يعنى شہر والوں نے جمعہ ميں نماز ظہر كى نيت كر لى تو اس كے باطل اورحرام ہونے ميں كوئى شك نہيں؛ كيونكہ ان پر جمعہ كى ادائيگى واجب ہے، اور اگر وہ اسے ترك كر كے نماز ظہر ادا كرتے ہں تو انہوں نے شرعى حكم كى مخالفت كى، تو اس طرح ان كا عمل باطل اور مردود ہو گا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

ليكن اگر نماز جمعہ ميں ظہر كى نيت كرنے والا شخص مسافر ہے تو اس نے جمعہ ادا كرنے والوں كے ساتھ اس ليے ظہر كى نيت سے جمعہ ادا كيا كہ وہ نماز عصر كو اس كے ساتھ جمع كر لے تو يہ بھى صحيح نہيں.

كيونكہ جب وہ جمعہ ميں حاضر ہو چكا ہے تو اس كے ليے نماز جمعہ ادا كرنا لازم ہے، اور جس پر نماز جمعہ لازم ہو اور وہ امام كے سلام ادا كرنے سے قبل ظہر كى نماز ادا كرے تو اس كى ظہر صحيح نہيں ہو گى، اور اگر بالفرض اسے صحيح بھى مان ليا جائے تو اس نے اپنے آپ كو بہت زيادہ اورعظيم اجر سے محروم ركھا ہے، جو كہ نماز جمعہ كا اجروثواب تھا.

يہ اور پھر " المنتھى " اور " الاقناع " كے مولفين جو كہ حنبلى علماء ميں سے ہيں نے بيان كيا ہے كہ:

نماز جمعہ كے ساتھ نماز عصر جمع كرنا صحيح نہيں، انہوں نے يہ نماز جمعہ كے بيان كے ابتداء ميں ہى اسے بيان كيا ہے.

ميں يہ بحث اتنى لمبى ضرورت كى بنا پر كى ہے، اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ وہ ہميں صحيح راستہ پر چلائے، اور بندوں كو فائدہ اور نفع دے، يقينا اللہ تعالى بڑا سخى اور كرم والا ہے" اھـ

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 371 - 375 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب