جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا والد نے جو مال آفس سے ناحق ليا ہے اسے استعمال كر لے؟

31217

تاریخ اشاعت : 24-01-2010

مشاہدات : 5333

سوال

ميرى مشكل يہ ہے كہ: ميرے والد صاحب ايك ائرلائن ميں ملازم ہيں، اور بعض اوقات اپنے ساتھ كچھ اشياء يا تو طياروں سے يا پھر آفس سے لے آتے ہيں، اور ميں انہيں كہتى ہوں كہ يہ جائز نہيں اور حرام ہے، اور يہ آپ كا مال نہيں، ليكن والد صاحب ميرى نصيحت نہيں سنتے حالانكہ وہ ظاہرى طور پر دين كا التزام كرتے ہيں، اور ميرى كوشش ہے كہ وہ باطن ميں بھى ايسے ہى ہوں، ليكن وہ ميرى بات نہيں مانتے، ميرا خيال ہے كہ وہ ميرى بات اس ليے نہيں مانتے كہ ميں ان كى بيٹى ہوں.
والد صاحب جو اشياء لاتے ہيں ميں ان سے بہت تنگ ہوں حالانكہ ميں انہيں استعال بھى نہيں كرتى، ليكن بعض اوقات مجھے ان اشياء كو استعمال كرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، كيونكہ اب انہوں نے بازار سے خريدنا بند كر ديا ہے اور دليل يہ ديتے ہيں كہ اس طرح كى اشياء ہمارے پاس موجود ہيں، ليكن وہ تو حرام كى ہيں، تو ان اشياء كا حكم كيا ہے ؟
اور اگر ميں ناپسنديدگى كا حالت ميں يا پھر مجبورا استعمال كرلوں تو كيا حكم ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كا سوال دو مسئلوں پر مشتمل ہے:

1 - آپ كے والد كا ملازمت سے بغير اجازت اشياء لينا.

2 - والد كى لائى ہوئى اشياء كو آپ كا استعمال كرنا.

1 - والد كے متعلق تو عرض يہ ہے كہ: اس كے ليے مالك كى اجازت كے بغير كوئى چيز لينى حرام ہے، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم اپنا مال آپس ميں باطل اور ناحق طريقہ سے نہ كھاؤ البقرۃ ( 188 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

"كسى مسلمان شخص كا مال اس كى خوشى اور رضامندى كے بغير حلال نہيں"

اسے امام احمد نے روايت كيا ہے ديكھيں: مسند احمد ( 20172 ).

اور اس بنا پر اس والد كو يہ نصيحت كريں كہ وہ يہ اشياء مالك كو واپس كرے، اس كے بغير وہ اس سے برى الذمہ نہيں ہو سكتا، اور اگر مالك كا علم نہ ہو تو ان اشياء كو صدقہ كر ديا جائے.

2 - اور رہا مسئلہ والد كے علاوہ باقى گھر والوں كا تو ان كے ليے يہ اشياء استعمال كرنى جائز نہيں؛ كيونكہ يہ ناحق حاصل كى گئى ہيں، ليكن ضرورت كے وقت استعمال ہو سكتى ہيں، كہ انسان جب اپنى جان پر كسى نفع كے فوت ہونے كا خدشہ محسوس كرے، يا پھر كوئى اور چيز ختم ہونے كا انديشہ ہو، يا پھر اس كى جان كا خطرہ ہو تو بقدر ضرورت استعمال كر سكتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ خالد بن على المشيقح، اسسٹنٹ پروفيسر امام محمد بن سعود يونيورسٹى قصيم سعودى عرب