جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

عورتوں كے ختنے كرنا واجب اور ضرورى نہيں

سوال

ايك عورت لڑكيوں كے ختنہ كے متعلق دريافت كر رہى ہے كيونكہ اس نے حديث پڑھى ہے جس ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كے ختنہ كرنے كا طريقہ بيان كيا ہے....
تو كيا عورت كا ختنہ كرنا واجب ہے يا سنت، اور اگر واجب ہے تو اس كى كيفيت كيا ہے، اور كونسا حصہ كاٹنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنى كتاب " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" ختنہ مردوں كے ليے تو واجب ہے، ليكن عورتوں كے حق ميں ختنہ كرنا باعث تكريم ہے، اور ان كے ليے ختنہ واجب نہيں، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، امام احمد كہتے ہيں كہ: مرد اشد ہے ... اور عورت نرم.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 70 ).

لڑكى كا ختنہ اس طرح ہوگا كہ پيشاب نكلنے والى جگہ پر مرغ كى كلغى جيسى چيز كو كاٹا جائے، سنت يہ ہے كہ سارى كلغى نہ كاٹى جائے بلكہ اس كا كچھ حصہ كاٹيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 28 ).

حكمت يہ ہے كہ اس ميں مصلحت كو مد نظر ركھا جائے، اگر تو وہ حصہ بڑا ہو تو پھر اس كا كاٹا جائے، وگرنہ نہ كاٹيں، شائد اس كا بڑا اور چھوٹا ہونا عورت كى خلقت ميں اختلاف كى بنا پر ہے، اور اس ميں كمى و زيادتى گرم اور سرد علاقے اور ملك كى وجہ سے ہوتى ہے.

عورتوں كے ختنہ كے متعلق مرفوع حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہے:

" مردوں كے ليے ختنہ سنت ہے، اور عورتوں كے ليے تكريم "

ليكن اس حديث كے صحيح ہونے ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ علامہ البانى رحمہ اللہ كى كتاب السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 1935 ) ديكھيں.

اور ختنہ كى كيفيت ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں بيان ہوئى ہے كہ:

" مدينہ ميں ايك عورت ختنے كيا كرتى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" تم ختنہ كرنے ميں مبالغہ كرتے ہوئے اسے بالكل ہى نہ كاٹ ديا كرو، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ فائدہ مند اور لذت كا باعث ہے، اور خاوند كے ليے زيادہ محبوب ہے "

سنن ابو داود كتاب الادب، اس حديث كو ابو داود نے ضعيف كہا ہے.

مندرجہ بالا سطور ميں اہل علم كى بيان كردہ كلام ہى كافى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد