جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا ہم عبادت ميں سابقين الاولين كي طرح كي جدوجہد كر سكتے ہيں؟

45207

تاریخ اشاعت : 09-06-2009

مشاہدات : 8422

سوال

سابق صالحين عبادت كي محبت اور اس كي ادائيگي ميں مشہور تھے، مثلا: قيام الليل، تلاوت قرآن، اور قرآن مجيد حفظ كرنا، تو كيا اس دور ميں ہم بھي ايسا كرسكتےہيں چاہے وہ كم ہي ہوں، باوجود اس كے كہ ہر طرف سے فتنوں نے گھير ركھا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

 ہم ميں سے كوئي ايك ان لوگوں كےساتھ ملنے كے لئے قرآن مجيد ميں مشروع اور شريعت اسلاميہ كے مطابق عبادت كرنے كي جدوجہد كر سكتا ہے، اور مسلمان كے پاس ايسي ہمت ہوني چاہئے جس سے پہاڑ ہل جائيں، اور يہ مقولہ بھي ہے: ( مردوں كي ہمت پہاڑ بھي ہلا ديتى ہے ) .

اور صحابہ كرام رضوان اللہ تعالى اطاعت وفرمانبرداري اور عبادت ميں امت مسلمہ كے لئے بہترين نمونہ ہيں، اس كے باوجود يہ اس بات سے مانع نہيں كہ ان كے بعد آنے والے لوگ عبادت ميں ان كا مقابلہ كريں حتى كہ وہ ہي نبي صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنے لئے خاص نہ كرليں، ان ميں سے ايك كي بات سنيں اور اس پر تعجب كريں كہ اس كي ہمت كتني عظيم تھي:

ابو مسلم خولاني رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( كيا محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام يہ گمان كرتے ہيں كہ ہمارے علاوہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم ان كے لئے ہي خاص ہيں، اللہ كي قسم ہرگز نہيں ايسا نہيں ہوسكتا ! ہم اس پر ان كےساتھ رش اور بھيڑ كريں گے حتى كہ وہ يہ جان ليں كہ انہوں نے بھي اپنے پيچھے مرد چھوڑے ہيں !! )

وہ يہ بات اس وقت كہا كرتے جب رات كو قيام كرتے اور جب ان كے پاؤں تھك جاتے تو ہاتھ مار كريہ كہا كرتے تھے، تو اس طر ح كي ہمتوں كے ساتھ ہي مسلمان شخص اطاعت وفرمانبرداري اور عبادات كرسكتا ہے، اور يہ مقابلہ ميں رغبت تعريف كردہ ہے اور اسي كے بارہ ميں اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور چاہئے كہ وہ اس ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنے ميں مقابلہ كريں

اور اگر بعد ميں آنے والے لوگوں كے مقدر ميں اطاعت وفرمانبرداري اور عبادت جيسے اعمال جليلہ نہ ہوتے تواللہ تعالى اپنے سارے بندوں كو اس پر ابھارتے اور اس كي ترغيب ديتے ہوئے نہ پاتے، اور اگر وہ ايسا كريں تو ان كے لئے اجرعظيم كا وعدہ نہ ہوتا، اور جب نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ عظيم نصيحت فرمائي:

( پانچ سے قبل پانچ اشياء كو غنيمت جانو، اپني موت سے قبل زندگى كو، اور اپني صحت كو بيمارى سے قبل، اور مشغوليت سے قبل فراغت كو، اور اپنى جوانى كو بڑھاپے سے قبل، اور اپنى فقيرى سے قبل اپنى مالدارى كوغنيمت جانو ).

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح و ضعيف الجامع الصغير ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو پھر ہميں يہ اس بات كي دعوت ہے كہ ہم اپني زندگي ميں اطاعت وفرمانبردارى كر كے اچانك موت آجانے سے قبل زندگي كو غنيمت سمجھيں، اور اپني صحت و تندرستى كو بيمارى اور عاجز ہو جانے سے قبل غنيمت جانيں، كيونكہ صحيح اور صحت مند شخص وہ كام كرسكتا ہے جو بيمار اور مريض شخص سے نہيں ہو سكتے، اور ہميں چاہئے كہ بيوي بچوں اور اعمال ميں مشغول ہو نے سے قبل اپنى فراغت كو غنيمت جانيں، اور بوڑھا اور كمزور ہونے سے قبل اپنى جوانى اور طاقت و ہمت اور چستى كو غنيمت جانيں، اور اپنى مالدارى كو صدقہ و خيرات اور اللہ تعالى كے راستے ميں خرچ كركے يہ سب كچھ چھن جانے اور اس سے عاجز ہونے سے قبل موقع غنيمت سمجھيں.

اور دور حاضر ميں ہمارے لئے معاصرين كے اندر بہت سى روشن مثاليں موجود ہيں كہ انہوں نے اپني زندگي اطاعت وفرمانبرداري اور عبادت ميں بسر كي، الحمد للہ مسلمانوں كا كوئي بھي دور اور وقت ان جيسے لوگوں كي مثالوں اور ان جيسے لوگوں سے خالي نہيں گزرا جو اللہ تعالى كي رضا اور محبت والے اقوال و اعمال كرنے ميں اپني ہمتيں صرف نہ كرتے ہوں.

امت اسلاميہ ميں دور حاضر ميں ايسے شخص بھي گزرے ہيں جنہوں نے اپني زندگي جہادى ميدانوں ميں اپنى سستى سى جان كي اللہ تعالى كے راستے ميں قربانى دينے كي بھي پرواہ نہيں كي اور اسے پيش كر كے اللہ تعالى سے جنت خريد لى، اور ان ميں ايسے لوگ بھي ہيں جنہوں نے شعور حاصل ہونے سے ليكر موت تك شرعي علم كے حصول ميں جدوجہد اور اپنى صلاحيتيں صرف كيں، اور ان ميں ايسے لوگ بھي ہيں جنہوں نے قيام الليل ميں كسي قسم كي كوتاہي نہ كي اور اسے نہ تو سفر ميں نہ ہي حضر ميں ترك كيا، اور ان ميں ايسى ہستياں بھي ہيں جنہوں نے اپنا سارا مال اللہ تعالى كے راستے ميں صرف كرديا اور ان كي زندگي ميں ان كے مال پر كبھي زكاۃ فرض ہى نہ ہوئى، اور ان ميں كچھ ايسے بھى ہوئے جنہوں نے اپنا آپ لوگوں كے لئے وقف كرديا، كسي كي سفارش كررہے ہيں تو كسي كي ضرورت پوري كر رہے ہيں، اور سائل كي بات سنتے اور فتوى پوچھنے لينے كا فتوى ديتے رہے، اور جاہل كو تعليم دينے كے ساتھ ساتھ لوگوں كو خيرو بھلائى كے كاموں پر ابھارتے رہے.

ميرے بھائي: اگر ہمارے علماء اور مجاہدين اور آئمہ كي زندگي ميں روشن مثاليں معدوم بھي ہوں، تو پھر بھي آپ ان كي زندگي ميں ايسي اشياء ديكھيں گے جو آپ كو اطاعت و فرمانبردارى پر ابھارتى ہونگى، اور يہ مجال اور موقع بھي ملے گا كہ آپ پہلے لوگوں كےساتھ ملنے اور ان سے آگے نكلنے كي دوڑ ميں شامل ہوں اور اس كي كوشش كريں.

اور ہمارے تينوں اماموں اور مشائخ: عبدالعزيز بن باز، علامہ البانى اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ تعالى كى زندگى ميں نظر دوڑانے سے يہ ديكھيں گے كہ ان ميں علم اور تعليم اور كوش و اجتھاد اور اللہ تعالى كے راستے ميں خرچ كرنا، سفارش اور دعوت وتبليغ يہ سارے كام پائے جاتے تھے.

اور آج تك مسلمان كفار كي سرزمين ميں جہاد كر كے بہت سى روشن مثاليں قائم كرتے چلے آرہے ہيں.

اور قرآن مجيد حفظ كرنے كے بہت سے صالح اور نيك نمونے پائے جاتےہيں، كہ بہت سے بچوں نے قرآن مجيد مكمل حفظ كرليا ليكن ابھي اس كي عمر آٹھ برس بھي نہيں ہوئى، اور آپ كو ايسے حافظ قرآن بھي مليں گے جنہوں نے صرف دو ماہ ميں مكمل قرآن مجيد حفظ كر ليا بلكہ اس سے بھى آگے بڑھ كر صرف ايك ماہ ميں .

اطاعت و فرمانبرداري، اور عبادت كر كے اپنے سے پہلے يا اپنے ہم عصر اہل علم لوگوں كے ساتھ ملنے اور ان كے درجہ تك پہنچنے كي محبت و رغبت ركھنے والے مسلمان كو چاہئے كہ وہ چند اشياء سے بچے:

پہلى چيز:

آخرت اور اس كے غظيم اجروثواب سے غفلت سے بچے، ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

امن اور غفلت سے خراب دل كا علاج اور اس كي معموري اللہ تعالى كا ذكر اورخشيت الہى ہے. ديكھيں: بدائع الفوائد ( 98 ) .

دوسرى چيز:

دنيا سے محبت ركھنے والے لوگوں اور دنيا كے حصول ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنا چھوڑ ديں، اور يہ دنيا ان دنيا والوں كے لئے ہي رہنے ديں بلكہ آپ اپنے آپ كو اس بھي بلند اور بہتر امور كي طرف لے جائيں اور اس كي جانب ديكھيں، اور اس سے بچيں كہ آپ كا سب سے بڑا كام اور علم صرف دنيا كے حصول كے لئے ہو، اور اسے چاہئے كہ وہ مال ومتاع اپنے ہاتھ تك ہي ركھے اور اسے دل ميں جگہ نہ دے.

تيسري چيز:

دير كرنے اور كرلونگا بعد ميں اس پر عمل كرونگا جيسے جملے ترك كر دے، بلكہ اسے چاہئے كہ وہ اعمال صالحہ كرنے ميں جتنى جلدى كر سكتا ہے كر لے تا كہ وہ اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان پر عمل كرے اور اسے تسليم كرے فرمان بارى تعالى ہے:

اور اپنے رب كي بخشش كي طرف اور اس جنت كي طرف دوڑو جس كى چوڑائى آسمان وزمين كے برابر ہے، جو پرہيزگار اورمتقى لوگوں كے لئے تيار كي گئي ہے آل عمران ( 133 ) .

اور ايك دوسرے مقام پر كچھ اس طرح فرمايا:

آؤ دوڑو اپنے رب كي مغفرت كي طرف اور اس جنت كي طرف جس كي چوڑائي آسمان وزمين كي چوڑائى جيسى ہے الحديد ( 21 ).

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب