جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

خاندان كو نقصان اور ضرر كے باوجود پردہ كرنا

45672

تاریخ اشاعت : 25-03-2008

مشاہدات : 8828

سوال

عرب ملك ميں كسى كا پردہ كرنے كا حكم كيا ہے، جبكہ حكومت سختى سے پردہ كرنا ممنوع قرار ديتى ہو، اور اس بنا پر دينى اور معاشرتى نقصان پہنچاتى ہو، تو كيا خاندان كے افراد كو بلاواسطہ طريقہ پر نقصان اور ضرر كے باوجود بھى وہ پردہ كى پابندى كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ كى قسم يہ بہت بڑا جرم، اور بہت ہى برا اور قبيح فعل ہے كہ اللہ كے حكم پر عمل كرتے ہوئے پردہ كرنے والى عورت كو پردہ كرنے سے منع كر ديا جائے، اور اسے اپنا سر اور چہرہ ننگا ركھنے كے قانون پر عمل كرنا لازم كيا جائے، تا كہ وہ بےپرد ہو كر لوگوں ميں آئے.

مسلمان شخص پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ شرعى احكام پر عمل كرے، اور اسلامى قوانين كا التزام كرے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" خالق يعنى اللہ سبحانہ و تعالى كى نافرمانى ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں "

مسلمان عورت كا پردہ كرنا ان واجبات ميں شامل ہوتا ہے جن ميں اطاعت و فرمانبردارى كرنا ضرورى اور لازم ہے، اور پھر عورت اپنے خاندان اور اپنے آپ كو جس نقصان اور ضرر پہنچنے كا تصور كر رہى ہے ہو سكتا ہے اس كى كوئى اصل ہى نہ ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے نقصان اور ضرر زيادہ نہ ہو، اور اس ضرر اور نقصان برداشت كرنا، اور اس پر صبر كرنا بھى ممكن ہے، اس بنا پر اس عورت كو چاہيے كہ وہ شرعى لباس اور پردہ كا اہتمام كرنے پر قائم اور ثابت قدم رہے.

اور اگر واقعى ضرر زيادہ اور يقينى ہو، يا پھر ظن غالب كى بنا زيادہ ضرر ہونے كا انديشہ ہو تو عورت كے ليے اپنى عزت اور دين كى حفاظت كرتے ہوئے پردہ نہ كرنا ممكن ہے، ليكن پھر بھى عورت كو چاہيے كہ وہ حتى الوسعہ جتنا بھى ممكن ہو ستر و حشمت كا اہتمام كرے، اور اس حالت ميں اس كے ليے بغير كسى شديد ضرورت كے گھر سے نكلنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے اس حالت ميں پڑھائى، يا ان اشياء كى خريدارى كى رخصت تلاش كرنى جائز ہے جو كوئى اور خريد سكتا ہو، بلكہ ضرورت سے ہمارى مراد علاج معالجہ ہے جو گھر ميں ميسر نہ ہو، يا پھر كوئى ايسا شرعى عمل جسے ترك كرنا ممكن نہ ہو، يا اس طرح كا كوئى اور كام.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بعض ممالك ميں مسلمان عورت كو پردہ نہ كرنے پرمجبور كيا جاتا ہے خاص كر سر سے كپڑا اتارنے پر، تو كيا اس پرعمل كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ اگر كوئى ايسا كرنے سے انكار كرے تو اسے سزا دى جاتى ہے مثلا ملازمت يا سكول سے نكال ديا جاتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

بعض ممالك ميں جو يہ مصيبت پيدا ہوئى ہے، يہ ان امور ميں شامل ہوتا ہے جن سے اللہ تعالى اپنے بندوں كى آزمائش كرتا ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

الم، كيا لوگوں نے يہ گمان كر ليا ہے كہ وہ ايمان كا دعوى كريں تو انہيں ويسے ہى چھوڑ ديا جائيگا اور ا نكى آزمائش نہيں ہو گى، اورالبتہ تحقيق ہم نے ان سے پہلے لوگوں كو بھى آزمايا، اللہ تعالى ان لوگوں كو جاننا چاہتا ہے جو سچے ہيں، اور انہيں بھى جو جھوٹے ہيں العنكبوت ( 1 - 3 ).

ميرى رائے تو يہ ہے كہ ان ممالك ميں مسلمان عورتوں كو اس معاملہ ميں حكمرانوں كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ برائى اور معصيت ميں حكمران كى اطاعت نہيں كى جا سكتى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى كى اطاعت كرو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى النساء ( 59 ).

اگر آپ اس آيت پر غور كريں تو آپ يہ پائينگے كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے:

اللہ تعالى كى اطاعت كرو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى .

يہاں اللہ تعالى نے اولى الامر كے ساتھ تيسرى بار اطيعو كے فعل كا تكرار نہيں كيا، جو اس كى دليل ہے كہ حكمرانوں كى اطاعت اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كے تابع ہے، اس ليے اگر حكمران كا حكم اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كے مخالف ہو تو پھر حكمران كى بات نہيں مانى جائيگى، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے مخالف حكم ميں حكمرانوں كى اطاعت نہيں ہوگى.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:

" خالق حقيقى يعنى اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں "

اور اس سلسلہ ميں عورتوں كو جو اذيت و تكليف آئے انہيں اس پر صبر كرنا چاہيے، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے معاونت و مدد طلب كرنى چاہيے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ حكمرانوں كو راہ حق كى ہدايت دے، ميرے خيال ميں پردہ نہ كرنے كى زبردستى اور جبر عورت كے گھر سے باہر نكلنے كے وقت ہے، ليكن گھر ميں يہ جبر اور زبردستى نہيں، اس ليے عورت كے ليے ممكن ہے كہ وہ اپنے گھر ميں ہى ٹكى رہے، اور باہر مت نكلے تا كہ وہ اس معاملہ سے محفوظ رہے.

اور رہى وہ تعليم جس كے نتيجہ ميں معصيت و نافرماتى ہوتى ہو تو وہ تعليم جائز نہيں، بلكہ عورت كو وہ تعليم حاصل كرنى چاہيے جو اس كے ليے دين و دنيا ميں ضرورى ہو، اور يہى كافى ہے، اور اكثر ا سكا گھر ميں ہى رہنا ممكن ہے "

ديكھيں: اسئلۃ تھم الاسرۃ المسلۃ ( 22 - 23 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب