جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا مرد ايك عورت كو نماز پڑھا سكتا ہے ؟

46524

تاریخ اشاعت : 23-05-2011

مشاہدات : 9112

سوال

ميرا تعلق فرانس سے ہے، ميں نيا نيا مسلمان ہوا ہوں، ميرا سوال نماز كے متعلق ہے:
اگر مرد كے پيچھے صرف ايك عورت كے علاوہ كوئى بھى نمازى نہ ہو تو اس حالت ميں كيا حكم ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ مرد اور عورت خاوند اور بيوى نہيں، كيا يہ نماز باجماعت شمار ہو گى اور جماعت كا ثواب حاصل ہو گا؟ يا كہ اس كے برعكس، اس طرح كى نماز غير مشروع شمار ہو گى يا مطلقا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو يہ عورت اس كى محرمات ميں سے ہو تو اسے نماز پڑھانے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ نماز باجماعت شمار ہو گى، ليكن اگر وہ عورت اس كى محرمات ميں سے نہيں بلكہ اجنبى ہے تو اسے نماز پڑھانے ميں خلوت لازم آتى ہے تو اس حالت ميں اسے نماز پڑھانا حرام ہو گا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" المھذب " ميں كہتے ہيں: ( مرد كا اجنبى عورت كو نماز پڑھانا مكروہ ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كوئى بھى مرد كسى عورت سے خلوت نہ كرے، كيونكہ ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہے "

امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس كى شرح ميں كہتے ہيں:

كراہت سے تحريمى كراہت مراد ہے، يہ اس وقت ہے جب وہ اس كے ساتھ خلوت كرے.

ہمارے اصحاب كا كہنا ہے:

جب كوئى مرد اپنى بيوى يا كسى محرم عورت كى امامت كرائے اور اس كے ساتھ خلوت كرے تو بغير كسى كراہت كے جائز ہے، كيونكہ اس كے ساتھ نماز كے علاوہ بھى خلوت جائز ہے.

اور اگر اس نے كسى اجنبى عورت كى امامت كرائى اور اس سے خلوت كى تو يہ اس عورت اور مرد پر حرام ہے، اس كى دليل وہ احاديث ہيں جو ميں ان شاء اللہ بيان كرونگا.

اور اگر اس نے اجنبى عورتوں كى امامت كرائى اور ان سے خلوت كى تو جمہور علماء كرام نے اسے قطعا جائز قرار ديا ہے، رافعى نے اسے كتاب العدد ميں ہمارے اصحاب سے نقل كيا ہے.

اس كى دليل وہ حديث ہے جو ميں ان شاء اللہ بيان كرونگا؛ اور اس ليے كہ زيادہ عورتوں كے جمع ہونے سے مرد كسى ايك كے ساتھ غالبا فساد نہيں كر پاتا.

اس مسئلہ ميں وارد شدہ احاديث ميں سے ايك وہ حديث ہے جو عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورتوں پر داخل ہونے سے بچو، تو ايك انصارى شخص كہنے لگا: ذرا ديور كے بارہ ميں تو بتائيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ديور تو موت ہے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

يہاں حمو سے خاوند كے رشتہ دار مرد مراد ہيں، اس كے قريبى مثلا خاوند كا بھائى ( ديور ) اس كا چچا، اور ان دونوں كے بيٹے، اور خاوند كا ماموں وغيرہ، ليكن خاوند كا باپ اور دادا تو محرم ميں شامل ہوتے ہيں، ان كے ليے خلوت جائز ہے، اگرچہ وہ حمو ميں شامل ہوتے ہيں.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے كوئى مرد كسى عورت كے ساتھ خلوت نہ كرے مگر اس كا محرم اس كے ساتھ ہونا چاہيے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور ابن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منبر پر فرمايا:

" آج كے بعد كوئى مرد بھى كسى غائب خاوند والى عورت پر داخل نہ ہو مگر اس كے ساتھ ايك يا دو مرد ہوں "

اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.

المغيبۃ: غين پر كسرہ ہے، وہ عورت جس كا خاوند غائب ہو، اور مراد يہ ہے كہ جس كا خاوند گھر سے غائب ہو چاہے وہ شھر ميں ہى ہو"

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 173 - 174 ).

ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: ( اور يہ كہ وہ كسى ايك يا زيادہ اجنبى عورتوں كى جماعت كرائے ان كے ساتھ مرد نہ ہو )

يعنى: ايك يا زيادہ اجنبى عورتوں كى جماعت كرانا مكروہ ہے، اجنبى عورت وہ ہے جو اس كى محرم نہ ہو.

اور مؤلف كى كلام ذرا تفصيل كى محتاج ہے:

اگر اجنبى عورت اكيلى ہو: تو صرف كراہت پر ہى اقتصار كرنے ميں نظر ظاہر ہے؛ جب خلوت لازم آتى ہو، اور اس ليے " الروض " ميں استدلال كيا ہے كہ: " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرد كو اجنبى عورت كے ساتھ خلوت كرنے سے منع كيا ہے "

ليكن ہم كہتے ہيں كہ: اگر وہ اس سے خلوت كرتا ہے تو يہ اس پر اس كى امامت كرانا حرام ہے؛ كيونكہ جو حرام كام كى طرف لے جائے وہ بھى حرام ہے.

رہا يہ قول كہ: ( ايك سے زيادہ ) يعنى وہ دو عورتوں كى امامت كرائے تو اس ميں بھى كراہت كے اعتبار سے نظر ہے؛ يہ اس ليے كہ اگر عورت كے ساتھ دوسرى عورت ہو تو خلوت كى نفى ہوتى ہے، چنانچہ اگر انسان امن والا ہو تو ان كى امامت كرانے ميں كوئى حرج نہيں، اور بعض اوقات بعض ان مساجد ميں ايسا ہو جاتا ہے جہاں جماعت كم ہو، اور خاص كر رمضان المبارك ميں قيام اليل كے وقت، انسان مسجد آتا ہے تو وہاں كوئى مرد نہيں ہوتا ليكن مسجد كے پچھلے حصہ ميں دو يا تين يا چار عورتيں ہوتى ہيں، تو مؤلف كى كلام كے مطابق وہ ان دو، يا تين يا چار عورتوں كے ساتھ نماز شروع كر سكتا ہے.

اور صحيح يہ ہے كہ يہ مكروہ نہيں، اور اگر اس نے دو يا دو سے زيادہ عورتوں كى جماعت كروائى تو خلوت زائل ہو جاتى ہے اور يہ مكروہ نہيں رہتى، ليكن اگر فتنہ كا خدشہ ہو، اور اگر فتنہ كا خدشہ ہو تو پھر حرام ہے؛ كيونكہ جو حرام كام كا ذريعہ ہو وہ بھى حرام ہے.

اور مؤلف كے قول: ( ان كے ساتھ كوئى مرد نہ ہو ) سے معلوم ہوا كہ اگر ان كے ساتھ كوئى مرد ہو تو اس ميں كراہت نہيں، اور يہ ظاہر ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 250 - 252 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب