جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

اسے یاد نہيں کہ آیا روزوں کی قضاء کرچکی ہے یا نہيں

سوال

گزشتہ رمضان میں نے ماہواری کے سبب کچھ روزے نہيں رکھے تھے ، اوراب مجھے یادنہیں کہ آيا میں نے اس روزوں کی قضاء میں روزے رکھے تھے یا نہیں ؟ لیکن ظن غالب یہی ہے کہ میں نے بطور قضاء روزے رکھیں تھے ، اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ کوقضاء کرنا لازم نہیں بلکہ ظن غالب ہی کافی ہے ۔

شرعی طور پر بھی عبادات میں ظن غالب پر عمل کرنا وارد ہے اس کی دلیل مندرجہ ذيل فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں پائي جاتی ہے :

( تم میں سےکسی ایک کو جب نماز میں شک پیدا ہوجائے تو اسے صحیح کوتلاش کرنا چاہیے اوراسی پروہ نماز مکمل کرکے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کے دوسجدے ادا کرلے ) ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 401 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 572 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اس میں امام ابوحنیفہ اوراہل کوفہ میں سے ان کی موافقت کرنے والے اہل الرائے کی دلیل پائی جاتی ہے کہ جسے نماز کی تعداد میں شک ہواوراس نے کوشش کی اورظن غالب پر عمل کرلیا تواس پر لازم نہيں کہ کم از کم پر عمل کرے اورزيادہ رکعات نہ پڑھے ، حدیث کا ظاہر تو ان کی ہی دلیل بنتی ہے ۔اھـ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے مجموع الفتاوی میں صحیح قرار دیا ہے کہ اس حدیث میں کوشش یا تحری سے مراد ظن غالب پر عمل ہی ہے ، اورجوبعض علماء کرام نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یقین ہے اس لیے کم ازکم پر بناکرنی چاہیے جس طرح اگر کسی کو شک ہوکہ دو رکعت ادا کی ہیں یا تین تواسے دو ہی شمار کرے اس قول کوشیخ الاسلام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 23 / 5 - 16 ) ۔

اورشیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی فقہ اوراصول فقہ کے منظوم اشعار میں کہتے ہيں :

اگر یقیق کرنا مشکل ہوتو ظن غالب پر عمل کرو تویہ اتباع ہوگي ۔

معنی یہ ہے کہ انسان جب یقین پر عمل نہ کرسکتا ہوتو اسے ظن غالب پر ہی عمل کرنا چاہیے ۔

اس لیے اگر آپ کا ظن غالب یہی ہے کہ آپ نے روزوں کی قضاء کرلی ہے توآپ پر کچھ بھی لازم نہیں آتا ، اوران ایام کی قضاء دوبارہ لازم نہيں ۔

لیکن اگرعورت کو یہ شک ہوکہ قضاء کی ہے یا نہيں ؟ اوراس کے ظن غالب پر بھی ان دونوں میں سے ایک چيز بھی نہ ہوتو اس صورت میں اسے قضاء لازم آتی ہے ۔

شیخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال پوچھاگيا :

جب عورت نے رمضان کے کچھ روزے چھوڑے ہوں اوروہ بھول گئي ہوکہ آیا اس نے روزے رکھے ہیں کہ نہیں ، اسے صرف اتنا یاد ہے کہ صرف ایک روزہ باقی ہے ، توکیا وہ سب روزے دوبارہ رکھےگی یا اسے یقین پربنا کرنی چاہیے؟

شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جب عورت کویہ یقین نہ ہوکہ اس پر صرف ایک روزہ کے علاوہ کچھ نہیں تواسے صرف ایک روزہ ہی رکھنا ہوگا ، لیکن اگر اسے یقین ہو کہ اس کا ایک روزہ باقی ہے اورصرف اسے یہ علم نہ ہوکہ اس نے یہ روزہ رکھا ہے کہ نہیں تواس صورت میں اس پرایک روزہ رکھنا واجب ہوگا ۔

کیونکہ اصل تو یہی ہے کہ یہ روزہ اس کے ذمہ ہے اوروہ اس سے بری الذمہ نہيں ہوئي لھذا اس پر روزہ رکھنا واجب ہوگا ، لیکن جب اسے شک ہو کہ اس کے ذمہ ایک روزہ ہے یا دو ؟ تواس صورت میں صرف ایک روزہ ہی لازم ہوگا ۔

اورجسے یہ علم ہو کہ اس پر ایک یا ایک سے زيادہ روزے ہیں ، لیکن اسے یہ شک ہوکہ آیا اس نے روزے رکھے ہیں کہ نہيں تواس صورت میں اسے روزے رکھنے واجب ہونگے ، کیونکہ اصل تویہی ہے کہ روزے باقی ہیں ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 372 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب