جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

لڑكيوں كا ختنہ كرنا، اور بعض ڈاكٹروں كا اسے تسليم نہ كرنا

60314

تاریخ اشاعت : 13-08-2007

مشاہدات : 9984

سوال

ہم نے بہت سے ڈاكٹر حضرات سے سنا ہے كہ وہ لڑكيوں كا ختنہ كرنا تسليم نہيں كرتے، اور كہتے ہيں كہ ختنہ كرنا ان كے ليے جسمانى اور نفسى كمزورى كا باعث بنتا ہے، اور ختنہ كرنا ايك موروثى عادت ہے شريعت ميں اس كى كوئى اصل نہيں، اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ختنہ كرنا موروثي اور خاندانى عادت نہيں جيسا كہ بعض لوگوں دعوى كرتے ہيں، بلكہ يہ تو شريعت رباني ہے اور ختنہ كى مشروعيت پر علماء كرام متفق ہيں، ہمارے علم كے مطابق تو مسلمانوں ميں سے كوئى عالم دين بھى ايسا نہيں جو ختنہ كو غير مشروع قرار ديتا ہو.

ختنہ مشروع ہونے كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث كا ثبوت ہے جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

1 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، اور زيرناف بال مونڈنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور ناخن تراشنا، اور مونچھيں كاٹنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5889 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 257 ).

يہ حديث عورتوں اور مردوں كے ختنہ كو عام ہے.

2 - امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب مرد عورت كى چار شاخوں كے مابين بيٹھ جائے اور ختنہ ختنے كے ساتھ لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).

اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ختنوں كا ذكر كيا ہے؛ يعنى ايك ختنہ بيوى كا اور ايك ختنہ خاوند كا؛ جو اس كى دليل ہے كہ عورت بھى اسى طرح ختنہ كروائےگى جس طرح مرد ختنہ كرواتا ہے.

3 - ابو داود رحمہ اللہ نے انصار قبيلہ كى ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ مدينہ شريف ميں ايك عورت ختنہ كيا كرتى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" تم بالكل جڑ سے ہى نہ كاٹو، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ بہتر اور خاوند كو بہت محبوب ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 5271 ).

ليكن اس حديث كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے بعض علماء اسے ضعيف قرار ديتے ہيں، اور بعض اسے صحيح مانتے ہيں، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مندرجہ بالا احاديث كى بنا پر عورتوں كا ختنہ كرنا مشروع ہے، نہ كہ اس مختلف فيہ حديث كى بنا پر.

ليكن اس كے حكم كے متعلق علماء كرام سے تين قسم كے قول منقول ہيں:

پہلا قول:

مرد اور عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، شافعى اور حنبلى حضرات كا مسلك يہى ہے، اور قاضى ابو بكر بن عربى مالكى نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہمارے نزديك مرد و عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور بہت سے سلف كا بھى يہى قول ہے، خطابى رحمہ اللہ نے ايسے ہى بيان كيا ہے، اور ختنہ واجب كہنے والوں ميں امام احمد بھى شامل ہيں... اور مشہور اور صحيح مذہب جو امام شافعى نے بيان كيا اور جمہور علماء نے بھى اسے قطعى كہا ہے كہ مرد و عورت دونوں كے ليے واجب ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 367 ).

مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 340 ) اور كشاف القناع ( 1 / 80 ).

دوسرا قول:

مرد اور عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا سنت ہے، احناف، اور مالكيہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے.

ابن عابدين حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور السراج الوھاج كى كتاب الطہارۃ ميں لكھا ہے كہ:

يہ علم ميں رہے كہ ہمارے ہاں ـ يعنى احناف كے ہاں ـ مردوں اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا سنت ہے " انتہى.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 6 / 751 )، اور مواھب الجليل ( 3 / 259 ).

تيسرا قول:

مردوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا مستحب اور ان كى عزت كا باعث ہے، يہ امام احمد كا تيسرا قول ہے، اور بعض مالكى حضرات مثلا سحنون كا بھى يہى قول ہے، اور موفق ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنى ميں بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.

ديكھيں: التمھيد ( 21 / 60 ) اور المغنى ( 1 / 63 ).

مستقل فتوى كميٹى كا فتوى ہے:

مرد اور عورت كے ليے ختنہ كرانا فطرتى سنت ميں سے ہے، ليكن مرد حضرات كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے حق ميں ختنہ كرانا سنت اور باعث عزت ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 113 ).

اس سے يہ واضح ہوا كہ فقھاء اسلام مرد و عورت كے ليے ختنہ كرانے كى مشروعيت پر متفق ہيں، بلكہ ان ميں اكثر تو دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب قرار ديتے ہيں، كسى ايك فقيہ نے بھى ختنہ نہ كرانے يا مكروہ يا حرام نہيں كہا.

دوم:

رہا يہ كہ كچھ ڈاكٹر حضرات ختنہ كا انكار كرتے ہيں، اور ان كا يہ دعوى ہے كہ ختنہ كرانا جسم اور نفس كے ليے مضر ہے!!

ان كا يہ انكار صحيح نہيں، ہميں ـ مسلمانوں كو ـ كسى بھى چيز كے ثبوت كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہونا ہى كافى ہے تا كہ ہم اس پر عمل پيرا ہو سكيں، اور پھر ہمارا تو اس كے مفيد ہونے كا بھى يقين ہے، اور ہم يہ پختہ يقين ركھتے ہيں كہ اس ميں كوئى ضرر اور نقصان نہيں، كيونكہ اگر اس ميں كوئى نقصان اور ضرر ہوتا نہ تو اللہ تعالى اسے مشروع كرتا اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كا حكم ديتے.

سوال نمبر ( 45528 ) كے جواب ميں كچھ طبى فوائد بيان كيے گئے ہيں جو بعض ڈاكٹر حضرات كى طرف سے بيان ہوئے ہيں.

سوم:

ذيل كى سطور ميں ہم عورت كا ختنہ كرنا صحت كے ليے مضر اور نقصان دہ كہنے اور ختنہ كے خلاف محاذ كھولنے والوں كے خلاف معاصر علماء ميں سے كچھ علماء كے فتوى جات پيش كرتے ہيں جنہوں نے ختنہ كے خلاف جنگ كا دندان شكن جواب ديا ہے.

ازہر يونيورسٹى كے سابقہ شيخ الازھر جاد الحق على جاد الحق كہتے ہيں:

" يہاں سب مذاہب كے فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ مرد و زن كے ليے ختنہ كرانا اسلامى فطرت اور دين اسلام كے شعائر ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ عمل قابل ستائش و تعريف ہے، ہمارے سامنے جو بھى كتب موجود ہيں جن كا ہم مطالعہ كر چكے ہيں ان ميں يہ نہيں ہے كہ كسى بھى مسلمان فقيہ نے يہ كہا ہو كہ مردوں يا عورت كو ختنہ نہيں كرانا چاہيے، يا ختنہ كرانا ناجائز ہے، يا عورتوں كے ليے ختنہ كرانا نقصان دہ ہے، اور اس ميں ضرر پايا جاتا ہے.

اگر يہ ختنہ اس طرح كيا جائے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اوپر كى سطور ميں بيان كردہ روايت ميں ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہا كو سكھايا تھا " ....

پھر اس كے بعد شيخ جاد الحق كہتے ہيں:

" مندرجہ بالا سطور كى بنا پر جب يہ واضح ہو چكا ہے كہ لڑكيوں كا ختنہ كرانا ـ بحث كا موضوع ـ اسلام كى فطرت ميں شامل ہے، اور اس كا طريقہ بھى وہى ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا ہے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور ان كى سنت اور راہنمائى كو كسى اور شخص كے قول كى بنا پر ترك نہيں كيا جائيگا، چاہے وہ شخص كتنا بڑا اور ماہر ڈاكٹر ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ طب اور ميڈيكل ايك علم اور فن ہے، جس ميں تطور و ترقى ہوتى رہتى ہے، اور ہر وقت اس كے متعلق نظريات ميں بھى تبديلى اور تغير آتا رہتا ہے " انتہى. مختصرا.

اور ازھر يونيورسٹى كى فتوى كميٹى كے سابقہ چئرمين جناب شيخ عطيہ صقر كہتے ہيں:

" وبعد:

لڑكيوں كے ختنہ كے خلاف جو آوازيں اٹھائى جارہى ہيں وہ شريعت اسلاميہ كے مخالف ہيں؛ كيونكہ نہ تو قرآن و سنت ميں كوئى صريح نص پائى جاتى ہے جس سے لڑكيوں كے ختنہ كرنے كى حرمت ثابت ہوتى ہو، اور نہ ہى فقھاء كرام كا كوئى قول ہے، اس ليے لڑكيوں كا ختنہ كرنا وجوب اور مندوب كے مابين گردش كرتا ہے، اور پھر فقھى قاعدہ ہے كہ:

حكمران اختلاف كرنے كا حكم دے. اس ليے اس مسئلہ ميں حكمران كو چاہيے كہ وہ يا تو وجوب كا حكم دے يا پھر مندوب ہونے كا، ليكن اس كے ليے ناجائز اور حرمت كا حكم دينا صحيح نہيں، تا كہ وہ شريعت اسلاميہ كا مخالف نہ ہو، كيونكہ اسلامى ممالك ميں شريعت اسلاميہ ہى قوانين كا مصدر اور اس ملك كا دستور ہے.

اور يہ جائز ہے كہ واجب اور مندوب كو اچھى طرح ادا كرنے كے ليے قوانين و تحفظات رائج كيے جائيں، تا كہ وہ دينى قوانين اور فيصلوں كے ساتھ متصادم نہ ہوں.

اور پھر ڈاكٹر حضرات يا كسى اور كى كلام قطعى نہيں، اس ليے كہ علمى انكشافات كا دروازہ كھلا ہے، اور ہر روز كوئى نہ كوئى نئى ريسرچ سامنے آتى ہے، جو پہلے نظريہ كو كالعدم اور تبديل كرنے پر مجبور كر رہى ہے" انتہى بتصرف.

مصرى دار الافتاء كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى مذكور ہے:

اس سے لڑكيوں كے ختنہ كى مشروعيت واضح ہوتى ہے، اور يہ ثابت ہوتا ہے كہ لڑكيوں كا ختنہ كرنا فطرتى محاسن ميں سے ہے، اور اس كا زندگى پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اسے اعتدال كى راہ پر لے جاتا ہے.

رہا يہ مسئلہ كہ كچھ ڈاكٹروں كى رائے ميں لڑكى كا ختنہ كرنا صحت كے ليے مضر اور نقصان دہ ہے تو يہ فردى رائے تو ہو سكتى ہے جس كى كوئى متفق عليہ علمى اساس و بنياد نہيں، اور نہ ہى يہ ايك فيصلہ كن علمى نظريہ بن سكا ہے، حالانكہ ڈاكٹر حضرات اس بات كے معترف ہيں كہ ختنہ شدہ مرد حضرات ميں سرطان كى بيمارى بہت كم پائى جاتى ہے اس كے مقابلہ ميں جن كا ختنہ نہيں ہوا انہيں يہ بيمارى بہت زيادہ لگتى ہے.

اور بعض ڈاكٹر حضرات تو صراحتا يہ كہتے ہيں كہ صرف مرد ڈاكٹروں سے ہى ختنہ كرايا جائے، نہ كہ ليڈى ڈاكٹر سے كيونكہ وہ اس سے جاہل ہيں، تا كہ ختنہ اچھى اور صحيح طرح ہو اور صحت پر اس كا كوئى نقصان نہ ہو.

اور پھر بيماريوں كے متعلق ميڈيكل نظريات اور بيماريوں كے علاج كا كوئى مستقل اور ايك ہى طريقہ نہيں، بلكہ وقت اور حالات اور ريسرچ كے ساتھ ساتھ اس ميں تبديلى ہوتى رہتى ہے، اس ليے ختنہ كے انكار كى رائے پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اس ليے كہ شارع جو كہ حكيم و عليم بھى ہے اور اس نے وہى چيز مشروع كى ہے جو فطرت انسانى كے ليے صحيح اور سليم اور بہتر ہے.

اور پھر ہميں تجربات نے يہ سكھا ديا ہے كہ لمبا وقت اور زمانہ گزرنے كے ساتھ ساتھ حادثات ہمارے سامنے وہ حكمتيں واضح كر ديتا ہے جس كى بنا پر شارع نے ہمارے ليے وہ احكام مشروع كيے تھے اور ہمارے ليے وہ حكمت مخفى رہى اور اس كا علم نہ ہوا، اور سنن ميں سے ہمارى اس كى جانب راہنمائى فرمائى.

اللہ تعالى ہم سب كو رشد و ہدايت كى توفيق نصيب فرمائے.

ديكھيں: فتاوى دار الافتاء المصريۃ ( 6 / 1986 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب