بدھ 26 جمادی اولی 1446 - 27 نومبر 2024
اردو

سالگرہ منانے كا حكم

سوال

سال يا دو سال يا اس سے زيادہ برس گزرنے پر سالگرہ منانے كا حكم كيا ہے، اور اس ميں موم بتياں بھجانا كيسا ہے، اور اس طرح كى تقريبات ميں شامل ہونے كا حكم كيا ہو گا، اور اگر كسى شخص كو اس طرح كى دعوت دى جائے تو كيا اس كے ليے اس ميں شريك ہونا ضرورى ہے، برائے مہربانى معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

كتاب و سنت كے شرعى دلائل سے معلوم ہوتا ہے كہ سالگرہ منانا بدعت ہے، جو دين ميں نيا كام ايجاد كر ليا گيا ہے شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں، اور نہ ہى اس طرح كى دعوت قبول كرنى جائز ہے، كيونكہ اس ميں شريك ہونا اور دعوت قبول كرنا بدعت كى تائيد اور اسے ابھارنے كا باعث ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كيا ان لوگوں نے ( اللہ كے ) ايسے شريك مقرر كر ركھے ہيں جنہوں نے ايسے احكام دين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں الشورى ( 21 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

پھر ہم نے آپ كو دين كى راہ پر قائم كر ديا سو آپ اسى پر لگے رہيں اور نادانوں كى خواہشوں كى پيروى نہ كريں

يہ لوگ ہرگز اللہ كے سامنے آپ كے كچھ كام نہيں آ سكتے كيونكہ ظالم لوگ آپس ميں ايك دوسرے كے دوست ہوتے ہيں اور اللہ تعالى پرہيزگاروں كا كارساز ہے الجاثيۃ ( 18 - 19 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كى جانب سے جو تمہارى طرف نازل كيا گيا ہے اس كى پيروى كرو، اور اللہ كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو الاعراف ( 3 ).

اور صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ مردود ہے "

اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے بہتر بات اللہ كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر راہنمائى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور بدعات ہيں اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اس موضوع كى احاديث بہت زيادہ ہيں.

پھر ان تقريبات كا بدعت اور برائى ہونے كے ساتھ ساتھ شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى اصل بھى نہيں ہے، بلكہ يہ تو يہود و نصارى كے ساتھ مشابہت ہے، كيونكہ يہ تقريبات وہى مناتے ہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو ان كے طريقہ اور راہ پر چلنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

" تم لوگ ضرور اپنے سے پہلے لوگوں كى پيروى اور اتباع كرو گے بالكل اسى طرح جس طرح جوتا دوسرے دوسرے كے برابر ہوتا ہے، حتى كہ اگر وہ گوہ كے سوراخ اور بل ميں داخل ہوئے تو تم ميں اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس سے مراد يہود و نصارى ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور كون "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور كون ؟ كا معنى يہ ہے كہ اس كلام سے مراد اور كون ہو سكتے ہيں.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 115 )