جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

موزوں پر مسح كرنے كى شروط

سوال

موزوں پر مسح كرنے كے ليے كيا شروط ہيں، اس كے دلائل كيا ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

موزوں پر مسح كرنے كى چار شرطيں ہيں:

پہلى شرط:

موزے وضوء كر كے پہنے ہوں، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمانا ہے:

" رہنے دو ميں نے انہيں وضوء كر كے پہنا تھا "

دوسرى شرط:

موزے يا جرابيں پاك ہوں، اگر نجس ہوں تو ان پر مسح كرنا جائز نہيں اس كى دليل يہ ہے كہ:

" ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابہ كرام كو جوتے پہن كر نماز پڑھا رہے تھے، چنانچہ دوران نماز ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے جوتے اتار ديے، اور صحابہ كرام كو بتايا كہ انہيں جبريل امين عليہ السلام نے بتايا تھا كہ ان كے جوتوں ميں گندگى لگى ہوئى ہے "

اسے امام احمد نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مسند احمد ميں نقل كيا ہے.

يہ اس بات كى دليل ہے كہ جس ميں نجاست لگى ہوئى ہو اس ميں نماز نہيں ہوتى، اور اس ليے كہ جب نجس چيز پر مسح كيا جائيگا تو مسح كرنے والا گندگى ميں ملوث ہوگا، چنانچہ اس كا مطہر ہونا صحيح نہيں.

تيسرى شرط:

ان پر مسح حدث اصغر يعنى وضوء ٹوٹنے ميں ہوتا ہے، نہ كہ جنابت ميں يا ايسى اشياء جن سے غسل واجب ہو.

اس كى دليل صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو جناب كے بغير دن رات اور تين تك موزے نہ اتاريں، ليكن پيشاب پاخانہ اور نيند سے پہنے ركھيں "

اسے امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ميں نقل كيا ہے.

چنانچہ حدث اصغر كى شرط لگائى جائيگى، اور اس حديث كى بنا پر حدث اكبر كى بنا پر مسح كرنا جائز نہيں جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں.

چوتھى شرط:

مسح شرعى طور پر محدود وقت ميں كيا جائے، جو كہ مقيم كے ليے ايك رات اور دن، اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن ہيں.

اس كى دليل على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مقيم كے ليے ايك دن اور رات، اور مسافر كے ليے تين دن اور تين راتيں مقرر كيں، يعنى موزوں پر مسح كے ليے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.

اور يہ مدت وضوء ٹوٹنے كے بعد مقيم كے ليے پہلے مسح سے شروع ہو كر چوبيس گھنٹے بعد ختم ہو جائيگى، اور مسافر كے ليے پہلے مسح كے بہتر ( 72 ) گھنٹوں بعد ختم ہو گى.

چنانچہ ہم فرض كريں كہ ايك شخص نے منگل كے روز نماز فجر كے ليے وضوء كيا اور اس نے اس روز پانچوں نمازيں اسى وضوء كے ساتھ ادا كيں، اور بدھ كى رات نماز عشاء كے بعد سو گيا اور پھر بدھ والے دن نماز فجر كے ليے اٹھا اور پانچ بجے مسح كيا تو اس كے مسح كى ابتد بدھ كے روز صبح پانچ بجے شمار ہوگى، جو جمعرات كى صبح پانچ بجے تك رہے گى.

اور اگر فرض كريں اس نے جمعرات كے دن پانچ بجنے سے قبل مسح كيا تو وہ اس مسح كے ساتھ نماز فجر يعنى جمعرات كى نماز فجر ادا كر سكتا ہے، اور جب تك وہ طہارت پر قائم ہے جتنى چاہے نماز ادا كرے، كيونكہ اہل علم كے صحيح اور راجح قول كے مطابق مسح كى مدت پورى ہونے سے وضوء نہيں ٹوٹتا، يہ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے طہارت كا وقت مقرر نہيں فرمايا، بلكہ مسح كى مدت اور وقت مقرر كيا ہے، چنانچہ جب مدت ختم ہو جائے تو مسح نہيں ہو سكتا، ليكن اگر وہ باوضوء اور طہارت پر قائم ہے تو اس كى طہارت باقى رہےگى، كيونكہ يہ طہارت شرعى دليل كے مقتضى پر باقى اور ثابت ہے، اور جو چيز شرعى دليل سے ثابت ہو وہ شرعى دليل كے بغير ختم نہيں ہوتى.

اور پھر مسح كى مدت ختم ہونے سے طہارت اور وضوء ختم ہونے كى كوئى دليل نہيں، اور اس ليے بھى كہ اصل بھى يہى ہے كہ اسى پر باقى ہے جس پر تھا، حتى كہ اس كا ختم ہونا ثابت ہو جائے.

موزوں پر مسح كرنے كى شرطيں يہى ہے، ليكن بعض اہل علم نے اس كے علاوہ بھى كئى ايك شروط ذكر كى ہيں، ليكن ان ميں سے بعض ميں اختلاف ہے.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب