جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا اسلام ميں بدعت حسنہ كا وجود ہے ؟

تاریخ اشاعت : 14-02-2009

مشاہدات : 10207

سوال

ميں نے اشعرى اور صوفيوں كے كئى ايك مقالہ جات اور مضامين كا مطالعہ كيا ہے جس ميں انہوں نے بدعت حسنہ پر اس صحابى كے قصہ سے استدلال كيا ہے كہ صحابى نے ركوع سے سر اٹھا كر ربنا و لك الحمد حمدا كثير طيبا مباركا فيہ كے الفاظ كہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو صحيح قرار ديا.
ان كا كہنا ہے كہ حافظ ابن حجر اس رائے كا ساتھ ديتے ہيں اور انہوں نے ابن تيميہ رحمہ اللہ كو گمراہى كى طرف لے جانے والا قرار ديا ہے، كيا اس پر آپ كوئى تعليق لگائينگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ بدعت بھى ہو اور وہ حسنہ بھى حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 1560 ).

اگر كوئى قائل اس كے بعد بھى يہ كہے كہ بدعت حسنہ كا وجود ہے اور بدعت حسنہ پائى جاتى ہے تو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا معاند و مخالف ہى ہو گا.

دوم:

ركوع كے بعد بطور حمد يہ كلمات كہنے اور دعا پڑھنا معروف ہے اور اس كا ثبوت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملتا ہے، صرف اتنا ہے كہ اس صحابى نے جو كيا وہ يہ كہ حمد و تعريف كے كلمات انہوں نے ادا كيے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس پر مہر ثبت فرما دى، تو اس سے عبادات و اذكار كى اختراع اور ايجاد پر كيسے استدلال كيا جا سكتا ہے جس كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل ہى نہ ملتى ہو.

سوم:

اس صحابى كا يہ فعل فى نفسہ حجت نہيں، اور يہ معتبر اس وقت ہى شمار ہوا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس پر اقرار صادر ہوا اور آپ نے مہر ثبت فرمائى، اس سے قبل نہيں، اور اس بدعتى شخص كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد اپنے عمل پر كس طرح اقرار اور ثبوت حاصل ہو سكتا ہے ؟.

چہارم:

اگر ہم اس استدلال كو صحيح تسليم بھى كر ليں تو بھى يہ عام نہيں بلكہ زيادہ سے زيادہ بعينہ يہ واقعہ خاص ہو گا، ليكن اس كےمقابلہ ميں حديث " كل بدعۃ ضلالۃ " ہر بدعت گمراہى ہے يہ قطعى طور پر عموم پر دلالت كرتى ہے، اور پھر علماء كرام كے ہاں معروف ہے كہ منطوق مفہوم پر مقدم ہوتا ہے.

پنجم:

ہمارے ليے بغير وحى كے صرف اپنى عقل كے ساتھ ہى كسى كو حسن اور برا جاننا كس طرح ممكن ہو سكتا ہے، كيا اس ميں اختلاف كا احتمال وارد نہيں، اگر كوئى شخص اسے حسن ديكھتا ہے تو دوسرا اسے حسن تسليم نہيں كرتا بلكہ اسے غلط قرار ديتا ہے، تو پھر كسوٹى اور ميزان كيا ہو گا؟ كس كى عقل كے مطابق فيصلہ كرينگے اور كس كى عقل كا فيصلہ تسليم كرينگے ؟ كيا يہ بعنيہ اضطراب اور بدنظمى نہيں؟

ششم:

( يہ تيسرى وجہ كى تاكيد ہے ) جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس صحابى كى وہ عبادت يا ذكر كو صحيح قرار ديا تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار كى بنا پر شرعا مشروع ہوا اور اس وقت يہ سنت حسنہ ہو گى.

ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد اور وحى منقطع ہو جانے كے بعد كس طرح ہم جان سكتے ہيں كہ كسى شخص كى اختراع اور ايجاد كردہ يہ ذكر اور ورد يا عبادت اچھى اور مستحسن ہے اور شارع نے اسے برقرار ركھا ہے ؟

يہ تو ممكن ہى نہيں، اس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہمارے سامنے عبادات كے مسائل ميں صرف يہى راستہ رہ جاتا ہے كہ اسے صرف شريعت ميں وارد شدہ پر ااقتصار و انحصار كيا جائے نہ كہ كسى اور پر.

فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے كئى ايك اقوال نقل كيے ہيں اور بعض كا اقرار اور بعض پر اعتراض كيا ہے، تو علماء كرام كى شان يہى ہے وہ ايك دوسرے كى كلام كا مناقشہ كرتے ہيں تا كہ حق اور صواب كو تلاش كيا جائے اور حق تك پہنچا جائے.

ہو سكتا ہے اعتراض كرنے والا حق پر ہو اور يہ بھى ہو سكتا ہے جس پر اعتراض كيا جا رہا ہے وہ حق پر ہو، ليكن جو عبارت آپ نے سوال ميں نقل كى ہے اس كے متعلق ہم يہ كہتے ہيں كہ ہم نے ابن حجر كے ادب و ورع اور تقوى و معرفت كو ديكھ كر ہميں يقين ہے كہ وہ علماء كى عزت و احترام كرنے والے ہيں اور اس طرح كى عبارت باطل ہے، اللہ تعالى سب كو معاف فرمائے اور انہيں ان كے اجتھاد پر اجروثواب عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد