جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

ایک نوجوان ہمہ قسم کے گناہوں میں ملوث ہے لیکن اب توبہ کرنا چاہتا ہے۔

سوال

میں بہت بڑا پاپی اور کافر نوجوان ہوں، میں اب تک ہر قسم کا گناہ کر چکا ہوں، میں نمازیں بھی نہیں پڑھتا، لیکن اب توبہ کرنا چاہتا ہوں، آپ مجھے کسی ایسے شیخ کا بتلائیں جو مجھے توبہ کا راستہ بتلائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (٥٣) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ  ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے ۔ [53] اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کا حکم مان لو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہیں کہیں سے مدد بھی نہ مل سکے۔ [الزمر: 53 – 54]

مجھے آپ کا سوال موصول ہوا اور اس سوال میں جو چیز مجھے سب سے اچھی لگی وہ یہ ہے کہ آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ آپ نے جیسے کہ بتلایا کہ ترک نماز سمیت ہمہ قسم کا گناہ کر چکے ہیں۔ یہاں اہم ترین بات یہ سمجھ لیں کہ توبہ کا دروازہ آپ جیسے نوجوان کے لیے کھلا ہے، نیز آپ مندرجہ بالا آیات پر غور و فکر کریں، میں آپ کو کچھ عملی اقدامات آسان ترین انداز میں بتلاتا ہوں ان سے آپ کے لیے ان شاء اللہ توبہ کرنے کا طریقہ کار بالکل واضح ہو جائے گا۔

لفظ توبہ نہایت ہی عظیم لفظ ہے، اس کے معنی میں بہت ہی زیادہ گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے، توبہ محض زبانی جمع خرچ نہیں ہے کہ انسان زبان سے یہ کلمات کہہ دے اور پھر گناہ پر ڈٹا رہے، آپ ذرا اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور و فکر کریں:
وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ
ترجمہ: اور یہ کہ تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور اسی کی طرف توبہ بھی کرو۔[ھود: 3] اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ استغفار سے بھی اگلا درجہ ہے تبھی استغفار کے بعد توبہ کا حکم دیا جا رہا ہے۔

اسی طرح یہ بھی ہے کہ جس قدر کوئی معاملہ بڑا اور اہمیت کا حامل ہو گا اسی طرح اس کی شرائط بھی ہوں گی، چنانچہ علمائے کرام نے توبہ کے لیے کتاب و سنت سے ماخوذ شرائط ذکر کی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

پہلی شرط: فوری طور پر گناہ ترک کر دے۔

دوسری شرط: پہلے کیے ہوئے گناہ پر ندامت ہو۔

تیسری شرط: آئندہ کبھی بھی گناہ نہ کرنے کا عزم ہو۔

چوتھی شرط: مظلوم کا حق واپس کرے، یا مظلوم شخص سے معافی تلافی کروا لے۔

سچی توبہ کے لیے کچھ اور اہم امور بھی ہیں جنہیں فراموش کرنا ممکن نہیں ہے، مثلاً:

اول: گناہ اللہ کی رضا کے لیے ترک کرے، کسی اور وجہ سے نہیں۔ مثلاً: گناہ کرنے کی صلاحیت ہی نہ رہے، یا دوبارہ گناہ نہ کر سکتا ہو، یا لوگوں کی باتوں کے خوف سے گناہ ترک کرے، وغیرہ۔

لہذا اگر کوئی شخص گناہ اس لیے ترک کرتا ہے کہ گناہ کی وجہ سے معاشرے میں موجود نیک نامی پر منفی اثر پڑتا ہے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گناہ کی وجہ سے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں!

تو ایسا شخص بھی تائب شمار نہیں ہو گا جو گناہ صرف اس لیے چھوڑتا ہے کہ گناہ کی وجہ سے صحت اور جسمانی قوت کمزور ہو جاتی ہے، مثلاً: کوئی شخص زنا ایڈز جیسی بیماری کے خطرے کی وجہ سے چھوڑے ؛ کیونکہ ایڈز مہلک بیماری ہے اور انسانی یاد داشت کو ختم کر دیتی ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص رشوت اس لیے نہیں لیتا کہ اسے خدشہ ہے کہ کہیں رشوت دینے والا شخص اینٹی کرپشن کا اہلکار نہ ہو۔

وہ شخص بھی تائب نہیں کہلا سکتا جو نشہ آور چیزیں اس لیے نہیں لے سکتا کہ اس کے پاس نشہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

ایسا شخص بھی تائب کہلانے کا حقدار نہیں ہے جو گناہ کسی غیر ارادی رکاوٹ کی وجہ سے نہ کر سکے، مثلاً: ایک شخص زبان پر فالج کے اٹیک کی وجہ سے بول نہیں سکتا تو وہ جھوٹ بولنے سے توبہ کرے، اسی طرح ایک شخص کے مخصوص حصے میں تناؤ پیدا ہی نہیں ہوتا تو وہ زنا سے توبہ کرے، یا کوئی چور ایسے ٹریفک حادثے کے بعد توبہ کرے جس میں اس کے اعضا ناکارہ ہو جائیں، بلکہ ایسے شخص کے لیے ندامت اور گناہوں کی تمنا سے بھی دوری، یا سابقہ حرکتوں میں افسوس نہایت لازمی چیزیں ہیں، ایسی ہی صورتوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ندامت توبہ ہے۔) اس حدیث کو امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، نیز یہ روایت صحیح الجامع: (6802) میں موجود ہے۔

دوم: انسان کو گناہ اور اس کے خطرات کا احساس ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سچی توبہ تبھی ہو گی جب ماضی کے گناہوں کو یاد کر کے لذت اور مسرت نہ ہو بلکہ افسردگی چھا جائے، اسی طرح مستقبل میں کبھی بھی وہ گناہ کرنے کی تمنا نہ کرے ۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: الداء والدواء، اور الفوائد میں گناہوں کے متعدد نقصانات ذکر کیے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

“علم سے محرومی، قلبی تنہائی اور وحشت، معاملات میں رکاوٹیں، جسمانی کمزوری، طاعت الہی سے محرومیت، برکت کا مٹ جانا، کامیابی نہ ملنا، سینہ تنگ رہنا، برائیاں کرنے کو دل چاہنا، گناہوں کی لت پڑ جانا، گناہگار کی اللہ تعالی کے ہاں قدر و منزلت ختم ہو جانا، لوگوں کے ہاں عزت نہ رہنا، جانوروں کی جانب سے لعنت، ہمیشہ کمینگی چھائے رہنا، دل پر مہر لگ جانا، اور لعنت کا مستحق ٹھہرنا، دعائیں قبول نہ ہونا، بر و بحر میں فساد بپا ہونا، غیرت کا فقدان، حیا ختم ہو جانا، نعمتوں کا چھن جانا، عذاب نازل ہونا، گناہگار کا ڈرپوک بنا جانا، شیطان کے شکنجے میں جکڑ جانا، برا انجام پانا، اور آخرت میں عذاب کا مستحق ہونا۔”

جب آپ کو گناہوں کے ان نقصانات کا علم ہو گا تو آپ کلی طور پر گناہوں سے دور ہوتے چلے جائیں گے؛ کیونکہ کچھ لوگ ایک گناہ کو چھوڑ کر دوسرے گناہ میں ملوث ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ درج ذیل اسباب ہوتے ہیں:

  • گناہگار یہ سمجھتا ہے کہ یہ گناہ پہلے سے کمتر ہے۔
  • کیونکہ اس گناہ کو کرنے کا دل چاہتا ہے ، نیز اس میں شہوت بھی پوری بھر پور انداز میں پوری ہو رہی ہوتی ہے۔
  • کیونکہ فی الحال اسی گناہ کو کرنے کے وسائل مہیا ہیں، بقیہ گناہوں کے لیے تیاری اور اخراجات کرنے پڑیں گے، لہذا جس کے اسباب مہیا ہیں اس گناہ میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
  • کیونکہ اس شخص کے دوست احباب ابھی بھی اس گناہ میں ملوث ہیں، اور اس کے لیے اپنے دوستوں کو چھوڑنا مشکل ہے۔
  • کیونکہ اس گناہ کو کرنے سے ہم جولی دوستوں میں عزت افزائی ہوتی ہے، اور گناہ چھوڑنے سے عزت میں کمی کا امکان ہے اس لیے گناہ ترک نہیں کرتا۔

سوم: آپ توبہ کرنے میں تاخیر مت کریں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ میں تاخیر بذات خود ایک گناہ ہے، جس کے لیے الگ سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

چہارم: ماضی میں ضائع کردہ حقوق اللہ کو پورا کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں، مثلاً: ماضی میں جتنا عرصہ بھی آپ نے زکاۃ ادا نہیں کی تو آپ وہ ادا کریں؛ کیونکہ یہ غریبوں کا حق ہے۔

پنجم: جس جگہ آپ سے گناہ ہوتا ہے، اگر آپ کے وہاں مزید ٹھہرنے یا رکنے سے دوبارہ گناہ ہو سکتا ہے تو آپ وہ جگہ تبدیل کر لیں۔

ششم: گناہ کے معاون کسی بھی چیز سے دور ہو جائیں۔

کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ  ترجمہ: اس دن متقی لوگوں کے علاوہ تمام جگری دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔[الزخرف: 67] یعنی برے دوست قیامت کے دن ایک دوسرے کو لعن طعن کریں گے، اس لیے توبہ کرنے والے شخص پر لازمی ہے کہ وہ دنیا میں ہی انہیں چھوڑ دے، ان سے قطع تعلقی کر لے، اور اگر انہیں راہ راست کی دعوت نہ دے سکے تو کم از کم دوسروں کو ان کے بارے میں متنبہ کر دے، اور ایسا نہ ہو کہ شیطان دوبارہ سے پھر ان کے ساتھ چلنے کے لیے تمہیں کھینچ لے اور دلیل یہ دے کہ تم انہیں راہِ راست کی دعوت دو گے، حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ تم کمزور ہو اور ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں بہت سے لوگ ماضی کے برے دوستوں کے ساتھ ملے تو خود بھی برے بن گئے۔

ہفتم: آپ کے پاس موجود گٹار، اور سارنگی وغیرہ جیسے آلات موسیقی کو فوری طور پر تلف اور ضائع کر دیں، اسی طرح تصویریں، ویڈیوز، اور حیا باختہ کہانیاں اور سلیکون کی گڑیا وغیرہ کو توڑ دیں، یا تلف کر دیں یا جلا دیں۔

توبہ کرنے والے کا زمانہ جاہلیت کے تمام اسباب اور ذرائع سے دور رہ کر نیکی کی دہلیز پر آنا ضروری ہے، کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جن میں توبہ کرنے والوں کا اپنے پاس ان حرام چیزوں کو رکھنا ان کے دوبارہ گناہوں میں ملوث ہو جانے اور توبہ سے منہ موڑنے کا سبب بنا، یہ لوگ ہدایت کے بعد دوبارہ پھر گمراہ ہو گئے۔ ہم اللہ سے استقامت مانگتے ہیں۔

ہشتم: اچھے دوستوں میں سے کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں جو آپ کی مدد کرے اور برے دوستوں کا متبادل بنے، نیز ذکر کے حلقوں اور علمی مجالس میں مشغول رہیں اور اپنے وقت کو مفید چیزوں سے مصروف رکھیں، تاکہ شیطان کو ماضی کی یاد دلانے کے لیے کوئی موقع ہی نہ ملے۔

نہم: جس جسم کو آپ نے حرام کمائی سے پروان چڑھایا ہے اب اس جسم کی توانائی کو اللہ تعالی کی اطاعت گزاری میں صرف کریں اور حلال کمائی کھا کر اپنے جسم کی پاکیزہ پرورش کریں۔

دہم: زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں؛ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

اگر آپ واقعی صدق دل سے توبہ کرنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ خوش خبری آپ ہی کے لیے کہ آپ کی سابقہ ساری برائیاں بھی اللہ تعالی نیکیوں میں بدل دے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (٦٨) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (٦٩) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
ترجمہ: اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ [68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ [69] ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان: 68- 70]

میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ آپ کو مندرجہ بالا تفصیلات سے بہرہ ور فرمائے، اور آپ کے دل کو ہدایت دے، نیز ابھی کھڑے ہو جائیں اور کلمہ شہادت پڑھ کر غسل کریں اور اللہ تعالی کے حکم کے مطابق وضو کر کے نماز ادا کریں ، واجبات کی پابندی کریں، حرام کاموں کو چھوڑ دیں۔ جب کبھی آپ کو میری ضرورت پڑے تو مجھے آپ کی مدد کر کے بہت خوشی ہو گی۔

میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے پسندیدہ اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز وہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد