جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

بچے اور مجنون كے مال ميں زكاۃ كا وجوب

تاریخ اشاعت : 18-11-2010

مشاہدات : 9799

سوال

كيا چھوٹے بچے كے مال ميں زكاۃ فرض ہوتى ہے، حالانكہ وہ مكلف نہيں ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور علماء كرام كے ہاں چھوٹے بچے اور مجنون كے مال ميں زكاۃ فرض ہے، امام مالك، امام شافعى، امام احمد رحمہم اللہ كا يہى مسلك ہے، اور انہوں نے مندرجہ ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ان كے مال ميں سے صدقہ لے ليجئے، جس كے ذريعہ سے آپ ان كے مالوں كو پاك صاف كرديں التوبۃ ( 103 ).

لہذا مال ميں زكاۃ واجب ہے، اور يہ مالى عبادت ہے جب اس كى شروط پائى جائيں تو يہ فرض ہو جاتى ہے، مثلا نصاب اور سال پورا ہو جانا.

2 - جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو يمن روانہ كيا تو انہيں فرمايا:

" تم انہيں يہ بتاؤ كہ اللہ تعالى نے ان كے مال ميں زكاۃ فرض كى ہے، جو ان كے مالدار اور غنى لوگوں سے لے كر ان كے فقراء اورمساكين كو لوٹائى جائے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1395 ).

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مالدار اور غنى كے مال ميں زكاۃ فرض كى، اور يہ اپنے عموم كے اعتبار سے چھوٹے بچے اور مجنون اس ميں شامل ہيں، اگر ان كے پاس مال ہو تو زكاۃ فرض ہو گى.

3 - امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے عمر بن شعيب عن ابيہ عن جدہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں سے خطاب كيا اور فرمايا:

" خبردار! جو كوئى بھى كسى يتيم كى پرورش كا ذمہ دار بنے اور اس يتيم كا مال ہو تو اسے اس مال كے ساتھ تجارت كرنى چاہيے، تا كہ اسے زكاۃ ہى نہ ختم كھا جائے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 641 ) يہ حديث ضعيف ہے، امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اسے المجموع ( 5 / 301 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ترمذى ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.

اور يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے قول سے ثابت ہے، اسے عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے البيھقى ( 4 / 178 ) ميں روايت كيا ہے، اور اس كى سند كو صحيح كہا ہے، اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے المجموع ميں ان كى تصحيح كا اقرار كيا ہے.

4 - اور اسى طرح يہ على اور ابن عمر، اور عائشہ، اور حسن بن على، اور جابر رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے.

اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كا مسلك ہے كہ بچے كے مال ميں زكاۃ واجب نہيں، جيسا كہ اس پر باقى سارى عبادات واجب نہيں ہيں؛ مثلا نماز روزہ، ليكن انہوں نے اس پر فطرانہ اور كھيت كى زكاۃ واجب كى ہے.

اور جمہور علماء كرام رحمہم اللہ تعالى نے اس كا جواب يہ ديا ہے كہ:

بچے پر نماز اور روزہ اس ليے فرض نہيں كہ يہ بدنى عبادات ہيں، اور بچے كا بدن اس كا متحمل نہيں ہے، ليكن زكاۃ مالى حق ہے، اورمالى حقوق بچے پر واجب ہيں، جيسا كہ اگر انسان كا مال ضائع ہو جائے تو اس كے مال ميں سے اس كا نقصان پورا كرنا ہوگا، اور جيسا كہ رشتہ داروں كے نفقہ كى طرح اگر اس كى شروط پورى ہوں تو ان پر نفقہ كرنا واجب ہے.

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

بچے پر فطرانہ اور كھيتى كى زكاۃ اور باقى سارے مال مثلا سونا، چاندى اورنقدى كى زكاۃ كے وجوب ميں كوئى فرق نہيں، جيسے اس پر كھيتى ميں زكاۃ واجب ہے اسى طرح اس كے سارے اموال ميں زكاۃ واجب ہے اوركوئى فرق نہيں.

اور چھوٹے بچے اور مجنون كا ولى ان دونوں كے مال سے زكاۃ نكالنے كا ذمہ دار ہے، اور وہ اس سلسلے ميں بچے كى بلوغت كا انتظار نہيں كرےگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

" جب يہ مقرر ہو چكا تو ـ يعنى بچے اور مجنون كے مال ميں زكاۃ واجب ہونا ـ تو بچے اور مجنون كا ولى ان دونوں كے مال سے زكاۃ ادا كرے گا؛ كيونكہ زكاۃ فرض ہے اور اس كا ادا كرنا واجب ہے، جس طرح بالغ كى زكاۃ ادا كرنا واجب ہے، اور اس پر زكاۃ كى ادائيگى ميں اس كا ولى بچے اور مجنون كا قائمقام ہو گا، اور اس ليے بھى كہ يہ مجنون اور بچے پر واجب حق ہے، تو ولى كے ذمہ ہے كہ وہ ان دونوں كى طرف سے زكاۃ ادا كرے، جس طرح رشتہ داروں كا نفقہ ہوتا ہے. انتہى

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں كہتے ہيں:

ہمارے نزديك بچے اور مجنون كے مال ميں بغير كسى اختلاف كے زكاۃ واجب ہے، اور ان دونوں كے مال سے ولى كو زكاۃ ادا كرنى واجب ہے، جيسے ان دونوں كے مال سے تلف شدہ كا نقصان پورا كيا جاتا ہے، اور رشتہ داروں كا نفقہ ديا جاتا اور اس كے علاوہ ان كے دوسرے حقوق پورے كيے جاتے ہيں.

اگر ولى زكاۃ نہيں نكالتا تو بچے اور مجنون پر بلوغت اور عقل حاصل ہونے كے بعد پچھلى زكاۃ ادا كرنا ہوگى؛ كيونكہ يہ ان كے مال كا حق ہے، ليكن اس كے ولى نے اس كى ادائيگى ميں تاخير كر كے معصيت و نافرمانى كا ارتكاب كيا ہے، لہذا جو ان كے ذمہ ہے وہ ساقط نہيں ہو گا" انتہى

ديكھيں: المجموع ( 5 / 302 ).

ابن مسعود اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: بچے پر زكاۃ فرض ہے، ليكن وہ اس كى ادائيگى بلوغت كے بعد كرے گا، اور يہ دونوں روايتيں ضعيف ہيں، صحيح ثابت نہيں.

انہيں امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے المجموع ( 5 / 301 ) ميں ضعيف قرار دى ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص فوت ہو گيا اور اس نے اپنے پيچھے مال اور يتيم بچے سوگوار چھوڑے، تو كيا اس مال ميں زكاۃ واجب ہو گى ؟

اور اگر اس ميں زكاۃ واجب ہے تو اس كى ادائيگى كون كرے گا ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" يتيم بچوں كے مال ميں زكاۃ واجب ہے چاہے وہ نقدى ہو يا تجارتى سامان، اور چوپائے اور غلہ و پھل جن ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے، اور يتميم كے ولى كو چاہيے كہ وہ اس كے مال سے وقت پر زكاۃ نكالے... اور يتيم كے والد كے فوت ہونے سے ايك سال شمار كيا جائے گا، كيونكہ اس كى موت سے وہ مال يتيم كى ملكيت ميں آيا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے. انتہى

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 14 / 240 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا يتيموں اور مجنونوں كے مال ميں زكاۃ واجب ہے ؟

تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" يتيموں اور مجنونوں كے مال ميں زكاۃ واجب ہے، على، ابن عمر، جابر بن عبد اللہ، عائشہ، حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہم كا يہى قول ہے، اسے ابن منذر رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے.

اور ولى كے ذمہ يہ زكاۃ نكالنى واجب ہے، ان كے اموال ميں زكاۃ واجب ہونے كى دليل كتاب و سنت ميں زكاۃ كے دلائل كا عموم ہے.

اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو يمن كى طرف روانہ كيا تو انہيں بتايا كہ وہ وہاں كے لوگوں كو كيا كہيں گے:

" تم نے انہيں يہ بتانا ہے كہ ان پر زكاۃ ہے جو ان كے مالدار لوگوں سے لے كے ان كے فقراء ميں تقسيم كي جائے گى"

اسے محدثين كى ايك جماعت نے روايت كيا ہے.

اور " الاغنياء " كے الفاظ چھوٹے اور مجنون كو بھى شامل ہے، جس طرح فقراء كا لفظ چھوٹے اور مجنون كو شامل ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى مسند ميں يوسف بن ماہك سے بيان كيا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يتيموں كے مال ميں كوشش كرو، كہ كہيں اسے زكاۃ ہى ختم نہ كر دے"

يہ روايت مرسل ہے.

اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى نے موطا ميں روايت كيا ہے كہ ان تك پہنچا ہے كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے:

" يتيموں كے مال كے ساتھ تجارت كرو، تا كہ اسے زكاۃ ختم نہ كردے"

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كو كہا اور انہيں اس كا حكم ديا تھا اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ يہ حكم تھا اور اس پر لوگ عمل كرتے تھے، اور اس كے جواز پر اتفاق ہے.

اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى نے موطا ميں عبد الرحمن بن قاسم عن ابيہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں كہ:

عائشہ رضى اللہ تعالى ميرى اور ميرے بھائى كي ولى تھيں ہم دو يتيم ان كى پرورش ميں تھے اور وہ ہمارے مال ميں سے زكاۃ ادا كيا كرتى تھيں " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 410 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى بچے اور مجنون كے مال ميں زكاۃ كے وجوب كا قول اختيار كيا ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 14 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب