جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

اپنے آپکو سيد کہلوانے والے افراد کو زكاۃ دينے كا حكم

تاریخ اشاعت : 29-03-2014

مشاہدات : 5171

سوال

سوال : كيا يہ صحيح ہے كہ سيد كو مال یا زكاۃ وغیرہ دینا جائز نہيں ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

لوگوں كى يہ فكر اور سوچ ہے کہ كچھ سيد اور ولى ايسے ہيں جنہيں اللہ تعالى نے بشريت كے علاوہ كوئى اور خصوصيت بھی دى ركھى ہے، يا پھر انہيں لوگوں سے ہٹ کر كچھ شرف و مرتبہ حاصل ہے، يہ مجوسى سوچ ہے، جسکی ابتداء اور بنياد اس نظریے پر ہے كہ اللہ تعالى بشریت سے عاری چنیدہ اور خاص لوگوں ميں حلول كر جاتا ہے ۔

اہل فارس اپنے بادشاہوں اور سربراہوں جنہیں وہ كسرى كا نام ديتے تھے ان كے متعلق يہى اعتقاد ركھتے تھے، کہ يہ روح ايك بادشاہ سے دوسرے بادشاہ اور نسل در نسل منتقل ہوتى رہتى ہے، اور يہ مجوسى نظریہ رافضى شيعوں ـ جو كہ اصل ميں مجوسى تھے ـ كے ذريعہ مسلمانوں ميں پہنچی، اور وہ اس نظریے کو مسلمانوں ميں داخل کرنے میں کامیاب ہوگئے، مذکورہ نظریہ یہ ہے كہ اللہ تعالى کچھ لوگوں كو امامت وولایت کا شرف و مرتبہ عنائت فرماتا ہے۔

چنانچہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے بعد ان كى اولاد کے بارے ميں بهى ان رافضيوں كا يہى عقيدہ ہے، انہوں نے اس ميں كئى ايك مراتب كا اضافہ بھی کیا ہے، مثلا ان كے ہاں سيد، اور آيت كا مرتبہ ہے [كہ فلاں سيد ہے، اور فلاں آيت اللہ ہے ] اور يہى فكر اور سوچ بعض گمراہ قسم كے صوفى فرقوں ميں بھى سرايت كر چكى ہے، چنانچہ ان کے ہاں ابدال اور قطب [سے موسوم ]مراتب ہیں ۔

اور ان كا كہنا ہے كہ اس سيد يا ولى كو بلند شرف و مرتبہ حاصل ہونے کی وجہ سے ہماری مصلحتوں اور ضروريات کا ہم سے زیادہ علم ہے،اس لئے ہمارے لئے مناسب یہ ہے كہ ہم اپنے معاملات ان كے سپرد كريں، كيونكہ وہ ہم سے افضل اور بہتر ہيں، تو نتيجتا زكاۃ لينے كے زيادہ حقدار وہی ہيں، حالانکہ بلاشك و شبہ يہ کھلی گمراہى ہے۔

اور زکاۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں حق وہی ہے جو اللہ اور اسکے رسول نے بیان کردیا، کہ زکاۃ اسی کو ادا کی جائے گی جسکا ذکر قرآن مجید میں ہے، فرمایا:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور [حصول کیلئے] كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ [مصارف زکاۃ]اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہیں، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔التوبۃ /60

حنبلى مسلك كے مطابق افضل تو يہى ہے كہ مسلمان شخص اپنے شہر کے جان پہچان والے فقراء و مساكين ميں زکاۃ خود اپنے ہاتھوں سے تقسيم كرے ، اوراگر ایسا نہ ہو سكے تو پھر وہ زكاۃ تقسيم كرنے كے ليے ايسے نیک ، صالح ، دیانتدار شخص كو دے جس پر اسے بھروسہ اور اعتماد ہو، کہ وہ پوری کوشش کے ساتھ زكاۃ تقسيم كرنے کیلئے فقراء و مساكين كو تلاش كرے، اور اُن لوگوں کی طرح نہ کرے جو شخصی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے زکاۃ کا مال استعمال کرتے ہیں۔

اور ان جھوٹے سيدوں كو زكاۃ دينا باطل مذہب پر ان كى مدد و معاونت ہے، لہذا شرعى طور پر انہيں زكاۃ دينى جائز نہيں ہے، چاہے اپنے منہ سے مانگ بھی لیں، كيونكہ وہ يہوديوں اور عيسائيوں كى طرح لوگوں کا مال خود ہى ركھ ليتے ہيں جن كے بارہ ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيراً مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ

ترجمہ: اے ايمان والو! يقينا بہت سے یہودی اور نصرانی علماء لوگوں كا مال ناحق اور باطل طريقہ سے كھاتے ہيں، اور اللہ تعالى كے راستے سے روكتے ہيں ۔التوبۃ /34

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد