سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا یاجوج ماجوج اس وقت موجود اور بند (دیوار) حقیقی ہے

تاریخ اشاعت : 26-01-2005

مشاہدات : 35039

سوال

میرا سوال یاجوج ماجوج کے متعلق ہے مجھے اس کا علم ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ اور وہ لوٹ مار کریں اور جہنم میں جائیں گے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آیا وہ ابھی تک زندہ ہیں ؟
اور کیا وہ اس دیوار کے اندر محبوس ہیں جسے ذوالقرنین نے تعمیر کیا تھا ؟
اور کیا یہ دیوار واقعی (لوہے کی بنی ہوئی ہے ) یا کہ خیالاتی چیز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس میں کوئی شک نہیں کہ یاجوج ماجوج بنی آدم میں سے دو بڑی قومیں ہیں ، سورۃ الکھف میں ذوالقرنین کے قصہ پر نظر دوڑانے والے کو اس بات کا قطعی علم ہو گا کہ یہ دونوں قومیں موجود ہیں اور جو دیوار بنائی گئي ہے وہ کوئی خیالی اور معنوی نہیں بلکہ حقیقی اور حسی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئےتانبے سے بنائی گئی ہے ۔

تو اصل یہی ہے کہ ان قرآنی نصوص کو اپنی اصلی حالت اور ظاہر ہی میں لیا جائے اور ان میں کسی قسم کی تاویل اور تحریف کی جائے جو کہ اسے معنی اور مقصد کو ختم کر دے

اور پھر قرآن کریم نے اس کے بنانے کی تفصیل بلکہ اس کے بنانے میں کیا کچھ استعمال ہوا ہے اس کی بھی تفصیل ذکر کی ہے تو اس تفصیل کے بعد یہ کہنا کہ آیا یہ بند اور دیوار معنوی ہے یہ وہمی ہے ؟

اللہ تعالی نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئےفرمایا:

( حتی کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو ان دونوں کی دوسری طرف ایسی قوم پائی جو کہ بات کو سمجھنے کے قریب بھی نہ تھے انہوں نے کہا اے ذوالقرنین یاجوج ماجوج اس ملک میں بہت بڑ ے فسادی ہیں تو کیا ہم آپ کے لۓ کچھ خرچ کا انتظام کر دیں ؟( اس شرط پر کہ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے رب نے جودے رکھا ہے وہی بہتر ہے تم صرف قوت اور طاقت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط روک اور دیوار بنا دیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں لا دو یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ تیز آگ جلاؤ جب لوہے کی چادریں آگ ہو گئیں تو فرمایا پگھلا ہوا تانبا لاؤ تا کہ میں اس کے اوپر ڈال دوں تو ان میں نہ تو اس دیوار پر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ہی وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے (ذوالقرنین ) کہنے لگے یہ میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا بیشک میرے رب کا وعدہ سچا اور حق ہے ) الکھف / 93- 98

اور اس بات کی دلیل ابن ماجہ کی مندرجہ ذیل صحیح حدیث ہے کہ یہ امت اب بھی موجود ہے بلکہ وہ روزانہ اس کوشش میں لگی رہتی ہے کہ وہ یہاں سے لوگوں پر نکل جائیں ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بیشک یاجوج ماجوج اسے روزانہ کھودتے ہیں حتی کہ جب وہ اس سورخ سے سورج کی شعائیں دیکھتے ہیں تو ان کا سردار کہتا ہے کہ واپس چلو باقی کل کھودیں گے تو اللہ تعالی اسے پہلی حالت سے بھی سخت کر دیتا ہے حتی کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ تعالی چاہے گا کہ انہیں لوگوں پر بھیج دے تو وہ اسے سوراخ کریں گے حتی کہ جب وہ اس سوراخ سے سورج کی شعائیں دیکھیں گے تو ان کا سردار کہے گا کہ واپس چلو تم باقی ان شاء اللہ تعالی کل کھودو گے تو جب وہ واپس آئیں گے تو اسی حالت میں ہو گی جہاں وہ چھوڑ کر گۓ تھے تو وہ اس میں سوراخ کر کے لوگوں پر نکل آئیں گے تو وہ سارے پانی کو جذب اور خشک کر جائیں گے اور لوگ ان سے بچنے کے لۓ اپنے قلعوں میں قلع بند ہو جائیں گے تو وہ اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گۓ تو وہ تیر خون آلود ہو کر ان پر واپس آئے گا جو مجھے یاد ہے ( یعنی ان کے تیر خون آلود ہوں گے اور یہ ان کے لۓ فتنہ ہو گا ) تو وہ یہ کہنا شروع کریں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آگۓ اور آسمان والوں پر بھی غلبہ کر لیا تو اللہ تعالی ان کی گدی میں ایک کیڑا پیدا فرمآئے گا تو اس سے انہیں قتل کرے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک زمین کے جانور موٹے اور ان کے جسم بھر جائیں گے (یعنی چربی سے بھر جائیں گے ) اور گوشت سے بھر جائیں گے )

صحیح ابن ماجہ حدیث نمبر 3298

اور ایسے ہی ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا جو کہ زینت جحش سے بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گھبراہٹ کی حالت میں داخل ہوئےاور کہنے لگے لا الہ الا اللہ عرب کو اس شر سے ہلاکت ہو جو کہ قریب آگیا ہے آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپ نے اپنے انگوٹھے اور اس کی ساتھ والی انگلی کا حلقہ بنایا زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمیں ہلاک کر دیا جائے گا حالانکہ ہم میں صالح لوگ ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب برائی زیادہ ہو جائے گی ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر 3097

واللہ اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد