الحمد للہ.
مسلمان کی ذمہ داری تو وہی ہے جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ سب اچھی چیزیں پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اور اپنے بھائی کے لیے وہ سب بری چیزیں پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔ اور یہ بات اس بات کے منافی نہیں ہے کہ انسان اپنے لیے وہی کچھ پسند کرے جو دوسروں کے لیے پسند کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھے جو خود اس کے پاس نہیں ہے اور پھر اس کے حصول کی تمنا کرے تو اسے رشک کہتے ہیں، الا کہ انسان اس نعمت کے زائل ہو جانے کی تمنا کرے تو اسے حسد کہا جاتا ہے۔
مسلمان کو اپنے مسلم بھائیوں کے لیے اپنا دل صاف کرنے کی خاطر مجاہدہِ نفس بھی کرنا پڑتا ہے، چنانچہ اگر مسلمان کی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ محبت سچی ہوئی تو ایسے بہت سے مسائل سرے سے ہی ختم ہو جائیں گے۔ پھر جب مسلمان کو یہ معلوم ہو کہ جب وہ اپنے بھائیوں سے محبت کرے گا اور ان کی خیر چاہے گا تو بہت زیادہ اجر و ثواب ملے گا تو وہ اپنے بھائیوں کی خیر کے لیے ہر ممکنہ وسیلہ اپنائے گا، پھر اپنے بھائیوں کے بارے میں حسد کی بجائے ان کے کام آنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرے گا، اور پھر یہ نہیں دیکھے گا کہ دوسروں کا کیا فائدہ ہو گا۔
الشیخ محمد الدویش۔
آپ اللہ تعالی کے فرمان: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ترجمہ: یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل عطا کرتا ہے، اور اللہ تعالی عظیم فضل والا ہے۔ [الجمعہ: 4] پر خوب غور و فکر کریں۔
اسی طرح اللہ تعالی کے اس فرمان پر بھی تنہائی میں تدبر کریں:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا
ترجمہ: ہم نے ہی ان کی زندگانی میں دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے سے اپنے کام لیں ۔ [الزخرف: 32]
دنیا ہو یا آخرت دونوں جہانوں میں حسد کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، چنانچہ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سابقہ امتوں کی بیماری : حسد اور بغض سرائیت کر گئی ہے، یہ انسان کو گنجا کر دیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سر گنجا کر دیتی ہے، بلکہ دینداری کو گنجا کر دیتی ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جو تمہیں اس چیز پر ثابت قدم بنائے؟! آپس میں سلام عام کرو۔) اس حدیث کو ترمذی : (2434)نے روایت کیا ہے ۔ یہ روایت حسن ہے۔
"حدیث کے الفاظ: (دینداری کو گنجا کر دیتی ہے۔) کا معنی علامہ طیبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: باہمی بغض کی بیماری اس طرح انسان کے دین کا صفایا کر دیتی ہے جیسے استرا سر کے بالوں کو ختم کر دیتا ہے۔" ماخوذ از: " تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي "
محترم بھائی! محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو حسد کے حکم کا بھی علم ہے اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات کا بھی آپ کو علم ہے، لیکن آپ اس مذموم خصلت سے چھٹکارا پانے کا طریقہ پوچھنا چاہتے ہیں، ذیل میں آپ کے لیے چند حل پیش خدمت ہیں:
1-اللہ تعالی سے خوب الحاح کے ساتھ دعا کریں کہ اس بیماری سے آپ کو چھٹکارا دے دے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے: وَاهْدِ قَلْبِيْ وَاسْلُلْ سَخِيْمَةَ صَدْرِيْ یعنی: میرے دل کو صراط مستقیم پر چلا، اور میرے دل سے دھوکا، کینہ، اور حسد نکال دے۔
2-قرآن کریم غور و فکر کے ساتھ کثرت سے پڑھیں، خاص طور پر ایسی آیات جن میں حسد کا تذکرہ ہے؛ کیونکہ جس قدر آپ قرآن کریم کی تلاوت کریں گے آپ کو اتنا ہی اجر ملے گا، اور جس قدر اجر بڑھتا جائے گا برائیاں کم یا ختم ہو تی جائیں گی؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ترجمہ: بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ [هود: 114]
3-رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں، اور غور کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس قدر حسد سے دور تھے، اور آپ دوسروں کے لیے بھی بھلائی کی کوشش کرتے تھے حتی کہ اپنے دشمنوں کے لیے بھی خیر چاہتے تھے، اس حوالے سے آپ "نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین" کتاب کا مطالعہ کریں۔
4-صحابہ کرام کی سیرت پڑھیں، اور انہوں نے جس طرح اپنی زندگی گزاری اس پر غور و فکر کریں، اس کے لیے آپ عبد الرحمن رأفت پاشا رحمہ اللہ کی کتاب "صور من حياة الصحابة" کا مطالعہ کریں۔ [اس کتاب کا اردو ترجمہ یہاں دستیاب ہے۔ مترجم]
5-اگر آپ کے دل میں اس قسم کے خیالات آئیں تو فوری تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیں، اور کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہو جائیں جن سے آپ کا ذہن کسی اور طرف متوجہ ہو جائے اور دل میں ایسے خیالات نہ آئیں۔
6-اور اگر پھر بھی شیطان آپ کے دل میں حسد پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر اسے آپ اپنی زبان پر نہ لائیں، یا کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے واضح ہو کہ آپ حسد کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی شخص حسد سے خالی نہیں ہو سکتا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حوالے سے کہتے ہیں: "کہا جاتا ہے کہ: کوئی جسم حسد سے خالی نہیں ہوتا، تاہم بااخلاق شخص اسے چھپا لیتا ہے، جبکہ بد اخلاق ظاہر کر دیتا ہے۔" قلبی امراض کا معاملہ یہ ہے کہ انسان کا اس کے قلبی خیالات کے متعلق محاسبہ نہیں کیا جائے گا، البتہ انسان کے اقوال اور افعال پر اس کا مواخذہ ہو گا؛ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً اللہ تعالی نے میری امت کی خطا، بھول چوک، اور جبرا کروائے گئے کام معاف فرما دئیے ہیں۔ ) اسے بخاری: (2033) نے روایت کیا ہے۔
7-جب آپ کو محسوس ہو کہ آپ کسی مخصوص فرد کے بارے میں حسد کا شکار ہیں تو آپ اس کے لیے کوئی تحفہ خریدیں اور جا کر اس سے مصافحہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہاتھ سے مصافحہ کرو اس سے کینہ ختم ہو تا ہے، اور باہمی تحفے دو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے، اور دل کی بیماری کا خاتمہ ہو جائے گا۔) اس روایت کو امام مالک نے مؤطا: (1413) میں روایت کیا ہے۔
کیونکہ حسد بغض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اور بغض کا متضاد محبت ہے، اور باہمی محبت پیدا کرنے کا طریقہ تحفہ دینا اور سلام عام کرنا ہے ؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت ایمان نہیں لا سکتے جب تک تم باہمی محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ اگر تم وہ کرنے لگو تو باہمی محبت کرنے لگو گے؟ آپس میں سلام عام کرو۔) اسے مسلم: (81) نے روایت کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "امراض القلوب" میں لکھتے ہیں:
"اگر کوئی شخص اپنے دل میں کسی کے بارے میں حسد محسوس کرتا ہے تو اس کا علاج تقوی اور صبر کے ذریعے کرے، اور اپنی اس کیفیت کو برا سمجھے۔۔۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی زبان یا فعل سے جارحیت اپنائے تو ایسے شخص کو سزا دی جاتی ہے، اور اگر کوئی تقوی اپنائے اور صبر سے کام لے تو وہ ظالموں میں شامل نہیں ہو گا، اور اللہ تعالی اسے تقوی کی بدولت فائدہ پہنچائے گا۔" ختم شد
واللہ اعلم